کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 14
(۱) قرآن و سنت کے مطابق قوانین بنانے کے لئے اس امر کی تشریح نہیں کی گئی کہ قرآن و سنت کی تعبیر کی نوعیت کیا ہو گی؟ سلفی یا خلفی؟ اس لئے ضروری ہے کہ اس امر کی ضمانت دی جاتی کہ قرآن و سنت کی تعبیر صرف وہی قبول کی جائے گی، جس کو اسلاف کی تعبیر سے مناسبت ہو گی۔ اس قید کے بغیر وہی ہو گا جو قرآن و سنت کے نام پر آج ہو رہا ہے۔
(۲) جمہوریت کی نوعیت بھی متعین کی جاتی کہ اسلام میں اس کی کیا نوعیت ہے؟
(۳) صدر اور وزراء اعظم کی علیحدگی کے لئے صرف چند نفوس کے عدم اعتماد کی قید پر انحصار نہ کیا جاتا بلکہ یہ بات بھی ان کی علیحدگی کے لئے کافی ہوتی کہ اُن میں سے کوئی ’کفر بواح‘ کا مرتکب ہو یا اُن کے مساعی اور ذاتی حیثیت کی وجہ سے اسلام اور شعائر دین کی بے حرمتی کے سامان عام ہو گئے ہوں اور ملک میں ان کی بدولت اسلام کے مستقبل کو کوئی تقویت نہ ملی ہو یا وہ کبائر کے مرتکب ہوئے ہوں۔
(۴) آزادیٔ رائے مشروط ہو کہ اسلام۔ ہاں وہ اسلام جس کا تصور اسلاف نے پیش کیا تھا، کے خلاف نہ ہو۔
(۵) صدر، وزراء اور ارکانِ اسمبلی کے لئے صرف مسلمان ہونا ہی کافی نہ ہو، بلکہ ضروری ہے کہ اُن کی مسلمانی پر اُن کا عملِ صالح شاہد ہو۔
(۶)وزراء کے لئے ضروری ہے کہ اُن کو متعلقہ شعبہ سے مناسبت حاصل ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کا خاص خیال رکھا کرتے تھے (الفاروق) رنہ ’سیاسی رشوت‘ سے زیادہ اس کی حیثیت نہ ہو گی۔
(۷) تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کے لئے انہی معنوں میں مسلمان ہونا ضروری ہے، جن معنوں میں صدر اور وزیر اعظم کا مسلم ان ہونا ضروری ہے۔
(۸) غیر اسلامی تحریکوں کے لئے ’مسلمانوں‘ کو اپنے افکار کی تبلیغ کر کے مرتد کرنے کی اجازت نہ ہو۔
(۹) انتخابات میں حصہ لینے والے اُمیدوار کو (الف) مناسب صلاحیت (ب) قابلِ ذکر خدمات (ج) اور اسلامی اخلاق اور کیریکٹر کا سرٹیفکیٹ پیش کرنا ضروری ہو۔ بدنام اور کبائر کے مرتکب کے لئے الیکشن لڑنا ممنوع ہو۔ جو لوگ پہلے ممبر رہ چکے ہوں، اُن کا ریکارڈ چیک کیا جائے، اگر اُس نے واقعی قابلِ ذکر خدمات انجام دی ہوں اور اپنی سیاسی سوجھ بوجھ سے ملک و ملت کو ایک مقام وپا ہو تو بہتر، ورنہ دوبارہ اس کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دی جائے۔ مٹی کے مادھؤوں اور دوسروں کے دم چھلوں اور ضمیموں کو نااہل