کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 13
سیرت النبی اور میلاد شریف کے جلسوں کی قیادت بھی فرماتے ہیں اور خود تقریریں بھی کرتے ہیں۔ گو ان سے بھی پیپلز پارٹی کے مقاصد کی تکمیل کے لئے جواز ہی ڈھونڈتے ہیں۔ تاہم تقریر فرمایا ہی کرتے ہیں۔ دوسری طرف جناب نے اعلان فرمایا ہے کہ وہ صدر بھٹو کے سوانح مرتب فرمائیں گے۔ یا دوستوں نے سنا تو کہا:
جناب! تسلی رکھئے! صدر بھٹو کو آپ یاد ہیں!
(۳)
ملکی آئین کی توثیق کے بعد:
ملکی آئین کی توثیق اور منظوری کے موقعہ پر، حزبِ اقتدار اور اپوزیشن کے مابین جو خوشگوار فضا پیدا ہو گئی ہے، صدر بھٹو اور اُن کی اس پارٹی نے جو لاؤوڈ سپیکر کا کام دیتی ہے۔ جشن آئین کے آغاز ہی میں حزبِ اختلاف کے خلاف اچانک مہم چلا کر فضا کو پھر سے مکدّر کر دیا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس خوشگوار فضا سے پیپلز پارٹی سے زیادہ اپوزیش کے وقار میں اضافہ ہوا ہے جو نئے انتخابات کے سلسلہ میں پیپلز پارٹی کے لئے وجہ پریشانی ہو سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک پیپلز پارٹی کی یہ وہ غیر جمہوری ذہنیت ہے، اپوزیشن ن کی مدتوں سے نشاندہی کرتی آرہی ہے۔
(۴)
ملکی آئین ہماری نگاہ میں:
حالیہ آئین کی حیثیت وہی ہے جو صرف ایک عام بے عمل کلمہ گو کی ہوتی ہے کہ ہم اس کو گو کافر نہیں کہہ سکتے تاہم اس کو کامل مومن اور پورا مسلم بھی نہیں کہہ سکتے۔ یہی حال ہمارے ملکی آئین کا ہے۔ گوہم اس کو کافرانہ دستور نہیں کہہ سکتے تاہم پورا مومنانہ ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ قرآنِ حکیم کا مطالبہ پورا پورا اسلام قبول کرنا ہے۔
اُدْخُلُوْا فِیْ الْسِّلْمِ کَافَّةً (قرآن)
اجمالی طور پر آئین کے جو پہلو خام یا محل نظر ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں۔