کتاب: محدث شمارہ 26 - صفحہ 10
خطرناک ابتلاؤ آزمائش میں ڈال کر قوم کا برا کریں گے۔
اگر آپ نے نیک نیتی کے ساتھ ملک کے لئے اسلام کو سرکاری مذہب تسلیم کیا ہے تو قوم کو وہ ہاتھ بھی مہیا کیجئے جن میں قرآن سجے، جو نہ صرف خود نمازی ہوں بلکہ پیش امام ہونے کے اہل بھی ہوں۔ دوسری متعلقہ صلاحیتوں کے علاوہ جو خاص سرٹیفکیٹ اس باب میں ضروری اور مطلوب ہے، وہ اسلامی کیریکٹر قرآنی علم و عمل اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شرم ہے، جو ان سے عاری ہے، وہ اس مملکت کا چپڑاسی بھی نہیں بن سکتا۔ چہ جائے کہ صدر وغیرہ کے عہدہ پر فائز کیا جائے۔
میزائل بنانے کے لئے مٹی کے برتن ساز کمہار کی تقرری مضحکہ خیز ہوتی ہے۔ بیمار کا علاج کرنا ہو تو جلا ہے کی طرف رُخ کرنا موت کو دعوت دینا ہوتا ہے، جراحی کے لئے مستند اور سپیشلسٹ ڈاکٹر درکار ہوتا ہے۔ اس کے لئے جلّاد کی خدمات کبھی کسی نے حاصل نہیں کیں۔ اگر حجامت کرانا ہو تو نای کو بلایا جاتا ہے۔ اُس کے لئے کبھی کسی نے لوہار کو عوت نہیں دی۔ مگر افسوس! اسلامی مملکت کے کاروبارِ حکومت کے لئے اہل کاروں کے انتخاب میں اتنی بھی احتیاط نہیں برتی جاتی جتنی اپنی حجامت کے لئے ایک نائی کے بارے میں ملحوظ رکھی جاتی ہے۔
دستور ساز وہ ہیں جو نہیں جانتے کہ دستور کیا ہے اور جو جانتے ہیں اُن میں اکثریت ان ارکان کی ہوتی ہے۔ جنہیں یہ معلوم نہیں کہ قرآن کیا ہے، سنت کس مقدس اسوۂ حسنہ کا نام ہے۔ اسلام کے کیا تقاضے ہیں، اسلاف کا طرزِ عمل کیا تھا اور اُن کے فرائض کیا ہیں؟
عموماً صدر اور وزراء کی ٹیم، اقتدار کا جھولا جھولنے والے شاطروں کا ایک ٹولہ ہوتا ہے، جن کو وحی الٰہی کی شرم ہوتی ہے اور نہ اس کا فہم، نہ غیرت، نہ احساس، نہ ہوش اور نہ فکر۔ آخر ان سے وہ قوم کیا توقع کر سکتی ہے جو ملک کو اسلامی مملکت بنانے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ایک کمہار اُن کو میزائل بنا دے گا۔ یا ایک جولاہا، لبِ گور مریض کے لئے کوئی مسیحائی دکھائے گا؟
ملک کے پورے دستور میں سبھی کچھ ملے گا، اگر نہیں ملے گا تو صرف خود ’دستور سازوں اور حکمران ٹولے‘ کے لئے اسلامی معیارِ انتخاب کے اصول اور دستور، کیوں؟ صرف اس لئے کہ یہ لوگ اس لحاظ سے اَن فِٹ اور نا اہل ثابت ہو جائیں گے اور اگر یہی بات ہے تو اُن کو کس حکیم نے بتایا تھا کہ مملکت کے لئے اسلام کو سرکاری مذہب قرار دیں؟ لیکن اگر قرار دیا ہے تو پھر یہ جوانمردی نہیں کہ خود کو چھپاتے پھریں؟ اگر