کتاب: محدث شمارہ 259 - صفحہ 9
ہے۔ ادھر صدام حسین بھی سخت خدشات کا شکار ہے۔ امریکہ واضح اعلان کرچکا ہے کہ وہ صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ کرکے رہے گا۔ ان حالات میں صدام حسین کو بھی اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی پڑی ہے۔ اب جبکہ صدام حسین نے کویت پر حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے تو امریکہ کے لئے فی الواقع ایک مشکل صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے۔ اس نئی پیش رفت کے بعد امریکی افواج کی سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں موجودگی کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ صدام حسین کا ہوا دکھا کر امریکہ اب عرب ممالک کی حمایت بھی حاصل نہیں کرسکے گا۔ امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ عرب ممالک اور صدام حسین کے درمیان مستقل بنیادں پر مفاہمت قائم ہوجائے۔ اسرائیل بھی یہی چاہتا ہے کیونکہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی فوجی طاقت کا اصل حریف ہمیشہ عراق ہی رہا ہے۔ خلیجی جنگ میں عراق نے اسرائیل پربھی سکڈ میزائل گرائے تھے اور بہت عرصہ پہلے اسرائیل نے عراق کا ایٹمی ری ایکٹر تباہ کردیا تھا۔ عراق اور عرب ممالک میں مفاہمت ایک اعتبار سے امریکی ڈپلومیسی کی ناکامی بھی ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک امریکی اثرورسوخ اور ناروا دباؤ سے باہر آنے کے لئے کتنے بے چین ہیں ۔ سعودی عرب کی حکومت نے ۱۹۹۱ء میں بادلِ نخواستہ عراق کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیا تھا مگر یہ فیصلہ ہمیشہ ان کے ضمیر پر بوجھ ہی رہا ہے کہ ایک عرب برادر ملک کے خلاف سعودی افواج نے جنگ میں حصہ لیا تھا۔اعلانِ بیروت کے بعد اس خطے میں امریکی مفادات کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل عرب ممالک کے درمیان اس مثبت پیش رفت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیں گے؟ اس کا امکان بہت کم نظر آتا ہے۔ امریکی سی آئی اے اور صہیونی ایجنسیاں اس مفاہمت کو ناکام بنانے کے لئے اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لائیں گی۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کو محض اعلانِ بیروت پر ہی قناعت نہیں کرنی چاہئے۔ انہیں چاہئے کہ وہ نہایت مہارت اور دانش مندی سے صہیونی عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے ابھی سے موٴثر حکمت ِعملی وضع کریں ۔ صدر صدام حسین کو بھی چاہئے کہ وہ کھلے دل سے اس مفاہمت کو کامیاب بنانے کے لئے اپنی ذاتی انا کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں ۔ کیا بعید ہے کہ عراق اور کویت کے درمیان مفاہمت منتشر اور فساد زدہ عالم اسلام کے اتحاد کے لئے پہلا سنگ ِمیل ثابت ہو!؟۔ اگر ایسا ہو تو کون کہہ سکتا ہے کہ اُمت ِمسلمہ کی تقدیر کب بدل جائے!؟ (محمد عطاء اللہ صدیقی)