کتاب: محدث شمارہ 259 - صفحہ 8
کے وزیراعظم عزت ابراہیم کے ساتھ معانقہ کیا۔ یہ معانقہ ’عرب اُخوت‘ کی بحالی کا علامتی اظہار تھا۔ ۱۹۹۰ء میں عراق کی طرف سے کویت کے خلاف فوجی جارحیت کے بعد سے علاقے میں مستقل طور پر غیر یقینی صورتحال چلی آرہی تھی۔ اب تو امریکی ذرائع ابلاغ بھی یہ تصدیق کرچکے ہیں کہ خلیجی جنگ امریکی حکمت ِعملی کا نتیجہ تھی۔امریکہ نے خلیج کے تیل پیدا کرنے والے ممالک میں اپنی مستقل موجودگی کو یقینی بنانے کے لئے عراق کو کویت پر قبضہ کرنے کا ’گرین سگنل‘ دیا۔ اس وقت عراق میں متعین امریکی خاتون سفیر نے صدام حسین سے ملاقات کرکے اسے اپنی حکومت کی طرف سے عدمِ مداخلت کی یقین دہانی کرائی تھی۔ جب صدام حسین نے پیش قدمی کی تو امریکہ نے واویلا مچا دیا اور یورپی دنیا کو جمع کرکے اتحادی افواج کے ذریعے عراق کی فوجی قوت کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ خلیجی جنگ نے نہ صرف عراق کو تباہ کیا بلکہ اس کے منفی اثرات پورے علاقہ پر پڑے۔ امریکہ نے صدام حسین کا ہوا دکھا کرسعودی عرب اور عرب امارات میں فوجی اڈے قائم کررکھے ہیں ۔ حجاز مقدس میں امریکی استعماری افواج کی موجودگی ہمیشہ تشویش کا باعث بنتی رہی ہے۔ سعودی حکومت کو اپنے عوام کی طرف سے امریکی افواج کی وجہ سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑاہے۔ گاہے بگاہے شہزادہ عبداللہ اور دیگر سعودی حکام کی طرف سے امریکی افواج کے سعودی عرب سے چلے جانے کے متعلق بیانات بھی شائع ہوتے رہے ہیں ۔ امریکہ نے افغانستان پر بمباری کے لئے جب نئے اڈوں کی درخواست کی، تو پہلے پہل سعودی حکومت نے سخت مزاحمت کی ، بعدمیں وہ امریکی دباؤ کا سامنا نہ کرسکی، سعودی عرب میں یہ احساس بھی پایا جاتا ہے کہ امریکہ اپنی افواج کو مستقل طور پر سعودی عرب میں رکھ کر اس مقدس سرزمین کی پاکیزہ ثقافت کو بھی تباہ کرنا چاہتا ہے۔ سعودی شہروں میں امریکی خواتین فوجیوں کی وجہ سے کئی دفعہ امن عامہ کی صورتِ حال بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ افغانستان سے دہشت گردی کے نام پر طالبان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد امریکی صدر جارج بش کی طرف سے ’برائی کی محور‘ ریاستوں کا شوشہ کھڑا کیا گیا، ان میں عراق سرفہرست ہے۔ شروع سے ہی امریکہ عراق پر دوبارہ حملہ کرنے کی دھمکیاں دیتا آیا ہے۔ کبھی ’انتھراکس‘کا بہانہ بنایا جاتاہے، تو کبھی کیمیکل ہتھیاروں کی کہانی گھڑی جاتی ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ عراق دہشت گردوں کی سرپرستی کررہا ہے۔ یورپی ممالک کی طرف سے ابھی تک امریکی منصوبہ کی حمایت نہیں کی گئی، ورنہ حالات کچھ ایسے تھے کہ امریکہ اپنی ریاستی دہشت گردی پر تلا ہوا ہے۔ ادھر عرب ممالک کا بھی خیال ہے کہ عراق پر حملہ کا اب کوئی جواز نہیں ہے، سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے عراق پر ممکنہ امریکی حملے کی حمایت نہیں کی