کتاب: محدث شمارہ 259 - صفحہ 72
”اے ایمان والو! ایک قوم (قبیلہ) ’دوسری‘ قوم (قبیلے)کا مذاق نہ اڑائے ۔ممکن ہے کہ جن کامذاق اڑایا جا رہا ہے، وہ مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں۔“ (الحجرات :۱۱)
یہاں ’قومیت‘ کی بحث پر گفتگو کرنے کی بجائے صرف مذکورہ عربی (نحوی) قاعدے کے ثبوت کے لیے ایک اور قرآنی استشہاد پیش کرناچاہتا ہوں کہ اس آیت میں بھی لفظ’ قوم‘ کا تکرار ہے جبکہ لفظ’ قوم‘ نکرہ بھی ہے، اس لیے مذکورہ بالا نحوی قاعدے کے مطابق اس آیت کے دو بار استعمال ہونے والے لفظ ’قوم ‘ سے دو الگ الگ قوموں (قبیلوں ) کا مفہوم پیش کیا گیا ہے کہ ایک قوم دوسری قوم سے (نسلی اختلاف کی بنیاد پر) تمسخر نہ کرے۔
مذکورہ نحوی قاعدے کے مطابق زیر بحث میثاقِ مدینہ کی عبارت کا صحیح مفہوم بھی واضح ہو گیاہے کہ یہاں اُمت کے لفظ کا تکرار ہے اور لفظ اُمت نکرہ بھی استعمال ہوا ہے لہٰذا دستاویز میں موجود اگلی عبارت میں مذکورہ ’اُمت‘ سے مراد پہلی عبارت میں مذکورہ ’اُمت‘ نہیں بلکہ دونوں سے مراد دو ’الگ الگ امتیں ‘ ہیں ۔اس لیے عبارت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ مہاجرین اور انصار مسلمان ہونے کی وجہ سے ایک الگ امت ہیں اور انہی کے ساتھ’امة واحدة‘ کے الفاظ بطورِ تاکید استعمال ہوئے ہیں جبکہ بنی عوف کے یہودی مسلمانوں کے علاوہ ایک الگ اُمت ہیں ۔
گویا قواعد ِعربیہ کی روشنی میں صحیح ترجمہ بالکل اس کے برعکس ہے جو آج کل کے غلط تراجم سے ماخوذ ایک علاقہ کے رہنے والے مسلم اور غیر مسلم کو ایک اُمت باور کرانے کے مغالطہ کے لیے پیش کیا جارہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو بھی اپنی اُمت میں شامل کیا ہے حالانکہ یہ بات گزشتہ تین وجوہات کی بنا پر قطعی غلط ہے، اس لیے غیر مسلم کسی صورت میں بھی مسلمانوں کے ساتھ یکساں اُمت نہیں ہیں خواہ میں وہ اکٹھے کیوں نہ رہتے ہوں ۔اسی طرح مسلم اورغیر مسلم مشترکہ ’ملت‘ کے حامل بھی نہیں ہو سکتے خواہ وہ نسلی اعتبار سے ایک قوم ہی کیوں نہ ہوں ۔قرآن کریم /الاعراف:آیت ۸۸ مع ترجمہ ملاحظہ فرمائیے جواس موقف کے لیے واضح دلیل ہے :
﴿ قَالَ الْمَلأُ الَّذِينَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِه لَنُخُرِجَنَّکَ يٰشُعَيْبُ وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا مَعَکَ مِنْ قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا… الآية ﴾
”قوم شعیب علیہ السلام کی متکبر سرداروں نے کہا:اے شعیب علیہ السلام ، ہم تجھے اور تیرے ساتھ ایمان لانے والے لوگوں کو اپنے علاقہ سے نکال باہر کریں گے یا پھر تمہیں ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا … “
آیت ِمذکورہ میں حضرت شعیب کی نسلی قوم کے سرداروں کی یہ بات وہ ایک نسل ہونے اور ایک علاقہ میں رہنے کے باوجود الگ ملت ہیں ، دو قومی نظریے کی کتنی بڑی وضاحت ہے!!