کتاب: محدث شمارہ 259 - صفحہ 7
نہیں ہے، جن کو تسلیم کرنے کے لئے وہ ہمیشہ رضا مندی کا اظہار کرتا رہا ہے۔ امریکہ کی طرف سے بھی اعلانِ بیروت کا خیرمقدم تو کیا گیا ہے مگر اس کا ردعمل نیم دلانہ اور معنی خیز ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رچرڈ باؤچر نے کہا ہے کہ امریکہ اسے کوئی منصوبہ (Plan) تصور نہیں کرتا بلکہ ابھی تک یہ محض ایک ’خیال‘ (Vision) ہے…آج سے چند ہفتے پہلے جب پہلی مرتبہ سعودی امن منصوبہ سامنے آیا تھا تو امریکہ نے اس پرنہایت مثبت ردعمل کا اظہار کیا تھا، اس وقت اس کے ذہین سفارت کاروں کے ذہن میں اس طرح کی موشگافی نہیں آئی تھی، مگر اب اسرائیل کے موڈ کو دیکھتے ہوئے اس کے صہیونیت پرست حکمرانوں نے اس منصوبہ میں کیڑے نکالنا شروع کردیئے ہیں ۔ اب انہیں یہ محض ایک ’بصیرت‘ ہی نظر آتا ہے حالانکہ کانفرنس کی منظوری کے بعد یہ خیال ایک ’عملی حقیقت‘ کا روپ دھارنے کا منتظر ہے۔ عربوں نے تو اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے۔ اب اس ’خیال‘ کو عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری اسرائیل اور اس کے ’مربی‘ امریکہ کی ہے۔ امریکہ کی سوچ دیکھتے ہوئے ان لوگوں کے یہ خدشات درست معلوم نہیں ہوتے جو سعودی امن منصوبہ کو بنیادی طور پر امریکی امن منصوبہ قرار دیتے رہے ہیں ۔ اگر یہ امریکی منصوبہ ہوتا، تو اسرائیل اسے مسترد کبھی نہ کرتا۔ بلکہ اسرائیل کی پیشگی منظوری کے بغیر امریکہ اسے آگے بڑھانے کا خطرہ کبھی مول نہ لیتا۔بہرحال اصولی طور پر سعودی امن منصوبہ کے درست ہونے یا نہ ہونے میں تو کلام ہوسکتا ہے، اس کے حق میں اور مخالفت میں دلائل دینے کی گنجائش بھی موجود ہے، یہ ایک حقیقت پسندانہ حکمت ِعملی ہے یا غیر دانش مندانہ عجلت پسندی، اس کے بارے میں حتمی رائے فی الحال قائم کرنا مشکل ہے۔ مگر ایک بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ منصوبہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کے قیام کے حوالے سے ایک تاریخی پیش رفت ہے۔ … ( ۲ ) … اعلانِ بیروت کی ایک نہایت اہم پیش رفت عراق اور کویت کے درمیان مفاہمت کا اعلان ہے۔ بیروت میں طے پانے والی اس مفاہمت کا اعلان کرتے ہوئے قطر کے وزیرخارجہ شیخ حامد بن جاسم آلِ ثانی نے یہ خوش آئند اعلان کیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سارے معاملات حتمی طور پر طے پاگئے ہیں اور عراق نے کویت کو آئندہ کوئی فوجی کارروائی نہ کرنے کی مکمل یقین دہانی کرا دی ہے۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عمرو موسیٰ نے بھی اس مفاہمت کو حتمی اور یقینی قرار دیا ہے اور خود کویت کے نائب وزیراعظم نے اس سمجھوتے پر اپنے سو فیصد مطمئن ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس تاریخی مفاہمت میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ عبداللہ نے اہم کردار ادا کیا۔ گیارہ سال کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے عراق