کتاب: محدث شمارہ 259 - صفحہ 6
داد کی حمایت کرتا رہا ہے۔
اسرائیل نے سعودی امن منصوبہ کی جس شق پر اعتراض کرکے اس منصوبہ کو مسترد کردیا ہے، اس کا تعلق اسرائیل کے علاقہ سے نکالے گئے فلسطینیوں کی دوبارہ اسرائیل میں بحالی سے ہے۔ اسرائیلی قیادت کا کہنا ہے کہ اس شرط کو مان لینے سے اسرائیل تباہ ہوجائے گا اور ایک کی بجائے دو فلسطین قائم ہوجائیں گے۔ اقوامِ متحدہ کی قرار داد نمبر ۱۹۴، جو ۱۹۴۸ء میں منظور کی گئی تھی، اس میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ وہ فلسطینی مہاجرین جنہیں طاقت کے زور سے اپنے وطن سے نکال دیا گیا تھا، اگر وہ واپس نہ آنا چاہیں تو اسرائیل انہیں بے دخل کرنے پر مالی معاوضہ ادا کرے۔ یہاں غور کے قابل یہ نکتہ ہے کہ اسرائیل اس امن منصوبہ کو مسترد کرنے کے لئے جو بے ہودہ دلیل پیش کرتا ہے، وہ خود اس کے خلاف جاتی ہے۔
اسرائیل فلسطین سے ہزاروں سال پہلے نقل مکانی کرنے والے یہودیوں کی فلسطین میں آبادکاری کو تو محض اس بنیاد پر ان کا حق قرار دیتا ہے کہ یہ ان کا موروثی وطن ہے، مگر وہ محض پچاس سال پہلے سے نکالے گئے فلسطینیوں کے حق کو تسلیم نہیں کرتا جو فلسطین کے اصل مالک ہیں ۔ مارچ کے پہلے ہفتے کے دوران جب سعودی امن منصوبہ سامنے آیا تھا تو اسرائیل نے فوری طور پر اس کا خیر مقدم کیا تھا۔ اب جب کہ انہوں نے یہ منصوبہ مسترد کردیا ہے تو معلوم ہوتا ہے ان کا مذکورہ خیرمقدم بھی ایک ’صہیونی چال‘ تھی۔ ایریل شیرون کا خیال تھا کہ اس کے خیرمقدم کے اعلان سے عرب ریاستوں میں شدید ردعمل سامنے آئے گا اور عرب آپس میں ہی لڑ پڑیں گے، مگر خیر مقدم کے اعلان کا فوری فائدہ یہ ہوگا کہ اس کے خلاف فدائی حملے رک جائیں گے۔ اس کا خیال تھا کہ یہ منصوبہ محض خیال اور ’اعلان‘تک ہی محدود رہے گا، کسی عملی پیش قدمی کا موجب نہیں ہوگا۔
ایرل شیرون کا اندازہ کچھ اتنا غلط بھی نہیں تھا کیونکہ فلسطینیوں کی ایک موٴثر تنظیم ’حماس‘ نے اب بھی اس منصوبہ کو مسترد کردیا ہے۔ اسامہ بن لادن کی طرف سے بھی (مبینہ طور پر) ایک عرب اخبار نے ای میل شائع کیا ہے جس میں اسامہ نے اس منصوبہ کوامریکی سازش قرار دیا ہے اور شہزادہ عبداللہ کو امریکی پٹھو کہا ہے۔ مگر فلسطینی ریاست کے سربراہ یاسر عرفات نے اس امن منصوبہ کو جرأت مندانہ اور قابل قبول اقدام قرار دے کر صہیونی چال کو ناکام بنا دیا ہے۔ اسرائیل بہت برے طریقے سے بے نقاب ہوگیا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کے قیام کے لئے سنجیدہ نہیں ہے۔ چونکہ اسے یقین ہوگیا ہے کہ عرب ریاستیں اسے فوجی اقدام کے ذریعہ ختم نہیں کرسکتیں ، اسی لئے وہ آج ان شرائط پر صلح کے لئے بھی تیار