کتاب: محدث شمارہ 259 - صفحہ 56
حکماے اسلام کے سوانح وتراجم کے مطالعہ سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ وہ روم اور یونان کے علومِ عقلیہ کو خلافِ دین، حرفِ آخر یا جامد چیز نہیں سمجھتے تھے۔ وہ خود اپنی ذاتی رائے رکھتے تھے۔ غوروفکر کرتے تھے، تجربہ ومشاہدہ سے کام لیتے تھے، ان علوم میں نئی چیزیں پید اکرتے تھے اور دوسروں کے اَقوال پر تنقید بھی کرتے تھے۔ تعلیم وتعلّم اور افادہ واستفادہ کے لئے وہ اقصاے ترکستان سے ’مغرب‘تک اور اندلس سے حجاز تک محو ِسفر رہا کرتے تھے۔ علومِ طبیہ میں ان کے نظریات ونتائج حیرت انگیز ہیں اور ان میں سے بعض حکما مستقل دبستان ہائے فکر کے بانی تھے۔
علم تاریخ
خاص طور پر ایک عنوان کے ماتحت ’علم تاریخ‘ کو بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس علم کے ساتھ مسلمانوں سے زیادہ کسی نے اعتنا نہیں کیا۔ مسلمانوں سے قبل تاریخ محض بے سند واقعات پر مبنی تھی، جسے توہم و خرافات اور قصہ وداستان وغیرہ کا مجموعہ سمجھا جاسکتا ہے۔ مسلمان چونکہ امر واقعہ کی صداقت کے لیے مستعد رہتے تھے، لہٰذا انہوں نے علمی بنیادوں پر علم تاریخ کی بنیاد رکھی، جس کے لیے انہوں نے شہادت، روایت اور درایت تینوں کو اہمیت دی، انہوں نے ہر قسم کی روایتوں میں سند کی مسلسل جستجو کی اور رواة کے حالات و تراجم اس سعی و تلاش سے بہم پہنچائے کہ اسے ایک عظیم فن بنا دیا۔
ابن خلدون فلسفہ تاریخ کا موجد ہے۔ اس نے درایت کے اصول مرتب کیے اور اس امر کی تشریح کی کہ راویوں کی جرح و تعدیل کے علاوہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ واقعہ فی نفسہ ممکن بھی ہے یا نہیں ؟ امام محمد بن جریر طبری (متوفی ۳۱۰ھ) کی ’تاریخ الرسل والملوک‘ ، البلاذری کی ’فتوح البلدان‘ ، ابن کثیر کی ’البدایہ والنھایہ‘ اور ’طبقاتِ ابن سعد‘ وغیرہ تاریخ و سوانح کی عظیم کتابیں شمار کی جاتی ہیں جو کئی کئی مجلدات پر مشتمل ہیں ۔
بیت الحکمت کا قیام
یہ ایک علمی ادارہ تھا جس کی تاسیس ہارون الرشید یا اس کے بیٹے مامون الرشید (روایات میں اختلاف ہے) کے ہاتھوں انجام پائی۔ بغداد میں موجود اس دارالترجمہ اور دارالتصنیف میں مختلف ممالک کے رہنے والے مختلف مذاہب کے پیر و کار اور مختلف زبانیں جاننے والے علما مصروفِ کار رہتے تھے۔ ان کا کام یہ تھا کہ یونانی اور دیگر زبانوں میں موجود اہم علمی کتب کا عربی میں ترجمہ کیا جائے۔ اس ادارے سے فلکیات کی رصد گاہیں (Observatories) بھی ملحق تھیں ،ان میں سے ایک بغداد میں اور دوسری دمشق میں قائم کی گئی۔ جہاں مسلم سائنسدانوں نے بطلیموس (Ptolemaeus) کی تیار کردہ قدیم تقویم کی تصحیح کی اور خاص طور پر نئی تقاویم ایجاد کیں ۔