کتاب: محدث شمارہ 259 - صفحہ 5
ہیڈکوارٹر پرجارحانہ حملے جاری ہیں ۔ یاسرعرفات کی اپنی ذات عدمِ تحفظ کا شکار ہے۔ ان حالات میں اسرائیلی درندوں کے خلاف مسلمانوں بالخصوص فلسطینیوں کے دل میں نفرت کا جو لاواپک رہا ہے ، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ نفرت اور اشتعال کی اس شدید فضا میں سعودی امن منصوبہ کا سامنے لایا جانا یقینا ایک ’جرأت مندانہ ‘ اقدام ہے۔ اُصولی طور پر دیکھا جائے تو یہ فیصلہ مسئلہ فلسطین کے متعلق اب تک عرب مسلمانوں کے متفق علیہ موقف سے ایک واشگاف دستبرداری ہے۔ اب تک مسلمانوں کا یہ موقف رہا ہے کہ ارضِ فلسطین پر اسرائیل کا قیام ناجائز ہے اور مسلمان ممالک نے، سوائے ترکی اور مصر کے، اسرائیل کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا ہے۔ اعلانِ بیروت ظاہر کرتا ہے کہ عرب قیادت تمام فلسطین سے اپنے جائز استحقاق کو چھوڑنے پر ذہنی طور پر آمادہ ہوگئی ہے او رحالات کی ستم ظریفیوں نے انہیں مایوسی کے ایسے اندھے غار میں دھکیل دیا ہے کہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کے علاوہ ان کے پاس اب کوئی چارہ کار نہیں رہا۔ بات اسرائیل کے مقابلے کی ہوتی تو شاید وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہتے، مگر ان کا مقابلہ امریکہ اور یورپی اقوام کی متحدہ سیاسی و عسکری قوت سے ہے جنہوں نے انتہائی ڈھٹائی سے اسرائیل کی پشت پناہی کو ہمیشہ اپنی خارجہ پالیسی اور قومی مفادات کا مرکزی نقطہ بنا رکھا ہے۔ اعلانِ بیروت کی ایک اور تعبیر بھی کی جاسکتی ہے، وہ یہ کہ شہزادہ عبداللہ نے مشرقِ وسطیٰ میں اس منصوبہ کو پیش کرکے ایک ’سیاسی چال‘ چلی ہے۔ ان کی اس ’سیاسی چال‘ نے امریکہ اور اسرائیل دونوں کو بھونچکا کے رکھ دیا ہے۔ اسے ’سیاست ِ مدن‘ کا نام بھی دیا جارہا ہے۔ عرب سفارت کاری کے میدان میں یہودیوں کی فریب کاریوں سے ہمیشہ مات کھاتے رہے ہیں ، یہ غالباً پہلا موقع ہے کہ صاف گو، کھردرے مزاج اور سادہ طبیعت کے حامل عربوں نے سفارت کاری اور بین الاقوامی سیاست کی بساط پر ایک ایسا مہرہ چلا ہے کہ جن کا فوری توڑ پیش کرنا امریکہ اور اسرائیل دونوں کے لئے مشکل دکھائی دیتا ہے۔ گذشتہ کئی برسوں سے امریکہ عرب ممالک پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں ۔ اب سعودی امن منصوبہ کو منظور کرکے عربوں نے بال امریکہ اور اسرائیل کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔ ا س امن منصوبہ میں جن اہم شرائط کو شامل کیا گیا ہے، ان میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں ہے جسے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی صورت میں اخلاقی حمایت حاصل نہ ہو۔ اقوامِ متحدہ نے اپنی قراردادوں کے ذریعے اسرائیل کو ۱۹۶۷ء کے بعد قبضہ میں لینے والے علاقے خالی کرنے کو کئی بار کہا ہے اور امریکہ بھی اس قرار