کتاب: محدث شمارہ 259 - صفحہ 34
هدينا مخالف لهديهم“ ہماری ثقافت اغیار کی ثقافت سے الگ تھلگ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شدت سے مخالفت کرنا بالکل فطری تھا، کیونکہ انسانی وجود میں ظاہر و باطن کا گہرا تعلق ہے۔ ظاہر باطن کا پابند ہے اور باطن ظاہر سے متاثر۔اگر ظاہری یعنی خارجی طور پر ہم غیر اسلامی تہذیب کو اختیار کریں گے تو اس کے اثرات دل و دماغ پر ضرور مرتب ہوں گے۔ اور پھر آہستہ آہستہ اس غیر اسلامی تہذیب کے گمراہ کن افکار و نظریات بھی قلب ِمسلم پر قبضہ کرلیں گے۔ اس تباہ کن خدشہ کے پیش نظر پیغمبر حکمت و دانش علیہ الصلوٰة والسلام نے مسلمانوں کو غیر مسلم اقوام کے تہذیبی طور اطوار سے بالکل کاٹ دیا اور اس بارے میں نرمی دکھانے والوں کو بارہا آگاہ کیا کہ اگرمیری پیش کردہ اسلامی تہذیب کی بجائے دوسروں کی طرف رخ کرو گے تو پھر انہیں میں گردانے جاؤ گے:من تشبه بقوم فهو منهم[1] ”جو جس قوم سے مشابہت اپنائے گا وہ انہی سے ہوگا “ مسلم قوم کی اعلیٰ ایمانی، اخلاقی و تمدنی تعلیمات سے تربیت کے بعد آپ کو غیر اسلامی تہذیب کی طرف ذرا سا میلان گوارا نہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ(۲۳ھ/۶۴۴ء) نے یہودِ مدینہ کے پاس سے گذرتے ہوئے تورات سے ان کی صرف ایک دعا نوٹ کی اور آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پڑھنی شروع کردی تو آپ کا چہرہ متغیر ہوگیا۔[2] آپ نے شرفِ انسانی کے منافی انداز کو ردّ کرتے ہوئے اسلامی تہذیب میں وہ طور طریقے شامل کئے جو ہر لحاظ سے انسانی وقار کے شایانِ شان تھے۔مثلاً قبل از اسلام عرب مردوں میں کھڑے ہوکر بھی پیشاب کرنے کا رواج تھا جبکہ عورتیں بیٹھ کر ہی پیشاب کرتیں ۔ آپ نے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کا نامناسب انداز پسند نہیں فرمایا اور بیٹھ کر پیشاب کرنے کو رواج دیا تو عرب پکار اٹھے کہ انہوں نے تو عورتوں کا سا انداز اپنا لیا ہے۔ إنه صلی اللَّہ علیہ وسلم بال جالسا مخالفا لعادة العرب فقالوا متعجبين انظروا إليه يبول کما تبول المرأة[3] ”آپ نے اہل عرب کی عادت کے برعکس بیٹھ کرپیشاب (کرنے کا رواج عام) کیا تو وہ تعجب اور حیرانگی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے کہ دیکھو :ایسے پیشاب کرتا ہے جیسے عورتیں …“ ماہانہ ایام میں عورت سے روا رکھے جانے والے غیر انسانی اور غیر اخلاقی یہودی رویے کے برعکس آپ نے جنسی تعلقات سے ہٹ کر دیگر تمام تعلقات باقی رکھنے کی اجازت دے دی۔[4] تو اس پر بھی یہودی چلائے تھے کہ مايريد هذا الرجل أن يدع من أمرنا شيئا إلا خالفنا فيه ہر تہذیب کا نمائندہ بنیادی یونٹ گھر ہوتا ہے۔ یہود کے گھر گندگی کے ڈھیر ہوتے تھے۔ آپ نے
[1] الکتب الستة (سنن ابی داد) ص ۱۵۱۸(حدیث نمبر ۴۰۳۱) [2] مراسیل ابی داود، (لاہور…) تحقیق و تعلیق، محمد عبدہ،ص :۱۸۳ [3] شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیة للقسطلانی، (بیروت، ۱۳۹۳ھ/۱۹۷۳ء) ج۴ ص ۲۳۴ [4] الکتب الستة (صحیح مسلم) ص ۷۲۸ (حدیث نمبر ۶۹۴ (۳۹۲)