کتاب: محدث شمارہ 259 - صفحہ 3
آنے کی اجازت دے دی جائے۔
شہزادہ عبداللہ کے مذکورہ انٹرویو کے منظر عام پر آنے کے فوراً بعد اسرائیل کے وزیراعظم ایریل شیرون نے اس کا خیرمقدم کیا تھا، حتیٰ کہ یہ بھی اعلان کیا تھا کہ وہ اس منصوبہ پر مزید مذاکرات کے لئے ریاض (سعودی دارالحکومت) جانے کو تیار ہیں اور اگر شہزادہ عبداللہ اسرائیل کا دورہ کرنا پسند کریں تو ان کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ امریکہ، اقوامِ متحدہ اور یورپ سمیت دنیا بھر میں اس امن منصوبہ کو مثبت سوچ قرار دیا گیا۔ البتہ اس وقت بھی عراق کے صدر صدام حسین نے بیان دیا تھا کہ سعودی عرب کو فلسطینیوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا۔ اُس وقت شہزادہ عبداللہ آلِ سعود نے وضاحت پیش کی تھی کہ اس وقت یہ محض ایک خیال ہے، اسے وہ ۲۸/ مارچ کو ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس میں پیش کریں گے، اس کی حتمی منظوری کا اختیار کانفرنس کو ہوگا۔ اس وقت اسرائیل کی انتہا پسند یہودی جماعتوں نے اس منصوبہ کی مخالفت کی تھی اور اسے اسرائیل کے وجود کے لئے خطرہ قرار دیا تھا۔
۲۷/ مارچ کو جب بیروت میں عرب سربراہ کانفرنس شروع ہوئی تو ابتدا ہی میں ایسی پریشان کن صورتحال پیدا ہوگئی کہ اس کانفرنس کی کامیابی کے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کیا جانے لگا۔ ۲۲ میں سے ۱۰ عرب سربراہوں نے شخصی طور پر اس میں شرکت سے معذوری کا اظہار کردیا۔ ان میں نمایاں ترین مصر کے صدر حسنی مبارک، اُردن کے بادشاہ عبداللہ اور لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی تھے۔ حسنی مبارک اور شاہ عبداللہ نے اسرائیل کی طرف سے یاسرعرفات کو اس کانفرنس میں شرکت کی اجازت نہ دینے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کے طور پر اس کانفرنس میں شرکت نہ کی۔ اس وقت نازک صورت حال پیدا ہوگئی جب لبنان کے صدر نے یاسر عرفات کے سیٹلائٹ کے ذریعے ویڈیو خطاب کی بھی اجازت دینے سے انکار کردیا، اس پر فلسطین سے آئے ہوئے وفد کے ارکان نے کانفرنس سے ’واک آؤٹ‘کا اعلان کردیا۔ پھر اسی دن اسرائیل میں ایک فدائی حملے میں اسرائیل کے ۲۱/ افراد مارے گئے تو اسرائیل کی طرف سے فلسطین کے ہیڈکوارٹر پر شدید حملہ کردیا گیا۔ ان تمام ناسازگار عوامل کی موجودگی میں عرب سربراہ کانفرنس کا کامیابی سے پایہٴ تکمیل تک پہنچنا اور اہم چونکا دینے والے ’دلیرانہ‘ فیصلے کرنا یقینا ایک خوشگوار حیرت کا حامل معاملہ ہے۔ ان سب رکاوٹوں کے باوجود سعودی عرب کا اپنے پیش کردہ امن منصوبے کو کانفرنس سے متفقہ طور پر منظور کرالینا بہرحال ایک عظیم سفارتی کامیابی قرار دیے جانے کے لائق ہے۔ سعودی عرب کے وزیرخارجہ سعود الفیصل نے درست کہا ہے کہ اب یہ منصوبہ ’عرب منصوبہ‘ کی شکل اختیار کرگیا ہے۔