کتاب: محدث شمارہ 259 - صفحہ 26
مسلمان، نیک صالح ولی یا امام اور عالم نے کبھی یہ وصیت نہیں کی کہ ان کی قبروں کو پختہ بنا کر وہاں رکوع وسجود کیا جائے بلکہ انہوں نے ہمیشہ ایسے اقدامات سے منع ہی کیا جس سے شرک کی بو آتی تھی۔ کچی قبر کی حد اونچائی کچی قبر ایک بالشت سے بلند نہ کی جائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر زمین سے ایک بالشت اونچی تھی۔ (بیہقی :۳/۴۱۰) علاوہ ازیں آپ نے اس بات سے منع کیا کہ قبر کے گڑھے (کی مٹی )سے زیادہ مٹی ڈالی جائے (ایضاً)۔ یہی بات حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے۔ (المغنی:۳/۴۳۵) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ اونچی قبروں کو عام قبروں کے برابر کروا دیا کرتے تھے۔ جیساکہ ابوہیاج اسدی فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ”کیا میں تمہیں اس کام پر مامور نہ کروں جس پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مامور کیا تھا اور وہ یہ کہ تم کوئی تصویر یا مجسمہ مٹائے بغیر نہ چھوڑنا اور جو قبر زیادہ اونچی ہو اسے (عام قبروں کے ) برابر کردو۔“ (مسلم:۹۶۹، نسائی:۲۰۳۰، ابوداؤد:۳۲۱۸، ترمذی:۱۰۴۹، حاکم: ۱/۳۶۹، احمد:۱/۱۶۹، بیہقی:۴/۳) میت کو جلانا اور دریا برد کرنا ہندو مذہب میں ہر میت کو جلا دیا جاتا ہے اور اس کی راکھ دریا برد کر دی جاتی ہے بلکہ ستم بر ستم یہ ہے کہ مرنے والے کی بیوی کو بھی زندہ ہی جل مرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جسے ’ستی‘ کہا جاتا ہے۔ اسلام نے میت کو جلانا تو کجا اس کی ہڈی توڑنے سے بھی سختی سے منع کیا ہے۔ حدیث ِ نبوی میں ہے کہ ”میت کی ہڈی توڑنا زندے کی ہڈی توڑنے کے مترادف ہے۔“ (ابوداود:۲/۱۹۰) بلکہ اسلام نے مسلمان میت کا ا س حد تک احترام باقی رکھا ہے کہ انہیں مرنے کے بعد برا بھلا بھی نہ کہا جائے چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ ”مرنے والوں کو گالی مت دو اس لئے کہ انہوں نے جو کچھ آگے بھیجا ہے وہ اس کی طرف پہنچ چکے ہیں ۔“ (بخاری:۱۳۹۳) اس حدیث کی رو سے مردے کی لاش کا پوسٹ مارٹم (میڈیکل معائنہ) ممنوع قرا ر پاتا ہے مگر انتہائی مجبوری اور ضرورت کے پیش نظر اس میں گنجائش ہے یعنی جب سبب ِموت، وجہ ِقتل اور اصل قاتل تک پہنچنے کی شدید ضرورت ہو یا مردہ عورت کے جسم سے زندہ بچہ نکالنے کی ضرورت ہو، وگرنہ محض طبی تجربات کے لئے اس کی گنجائش نہیں ۔ اسی طرح سمندری سفر میں اگر کوئی فوت ہوجائے اور قریبی ساحل یا کسی جزیرے تک رسائی سے پہلے اس میں تعفن کا خدشہ ہو تو اسے سمندر کے سپرد کیا جاسکتا ہے۔ (المغنی:۳/۴۳۹، فقہ السنة: ۱/ ۵۵۶)