کتاب: محدث شمارہ 259 - صفحہ 22
قبرستان میں مسجد بنانا درست نہیں
(۱) حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول نے اپنی وفات سے پانچ روز قبل یہ ارشاد فرمایا:
”لوگو! کان کھول کر سن لو کہ تم سے پہلی اُمتوں نے اپنے نبیوں اور ولیوں کی قبروں کو مسجدیں ( بنالیا تھا۔ خبردار! تم قبروں پر مسجدیں مت بنانا، میں تمہیں اس بات سے منع کرتا ہوں “ (مسلم:۵۳۲)
(۲) حضرت اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”یقینا ان (عیسائیوں ) میں جب کوئی نیک آدمی فوت ہوجاتا تو وہ اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے اور اس میں تصاویر آویزاں کرتے، یہی لوگ روزِ قیامت اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق شمار ہوں گے۔“ (بخاری :۴۳۳،مسلم:۵۲۸)
(۳) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے ا للہ کے رسول کا یہ ارشاد گرامی سنا کہ
”بلا شبہ بدتر ین لوگ وہ ہیں جن کی زندگی میں قیامت قائم ہوگی اور وہ ایسے لوگ ہوں گے جو قبروں کو مسجدیں بنائیں گے“ (احمد:۱/۴۰۵، ابن حبان:۲۳۱۶، ابویعلی :۵۳۱۶، ابن خزیمہ:۷۸۹)
(۴) حدیث ِنبوی ہے کہ”لاتجلسوا علی القبور ولاتصلوا إليها“
”قبروں پرنہ بیٹھو اور نہ ہی ان کی طرف نماز پڑھو“ (مسلم:۳/۶۲،ابوداؤد:۱/۷۱،نسائی:۱/۱۲۴، ترمذی:۱/۱۵۴)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ
”انبیا، صلحا اور بادشاہوں وغیرہ کی قبروں پر جومسجدیں بنائی گئیں ہیں انہیں گرانا اور ختم کرنا چاہئے۔ میرے علم کے مطابق معروف اہل علم کا اسمیں کوئی اختلاف نہیں “ (اقتضاء الصراط :۱۵۹)
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ: حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ زادالمعاد میں (۳/۲۲) فرماتے ہیں کہ
”ہر ایسی جگہ جہاں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہوتی ہو، اسے ’مسجد ِضرار‘کی طرح جلا دینااور ختم کردیناضروری ہے… اسی طرح اگر کسی قبر پرمسجد تعمیر کی گئی ہو تو اس مسجد کو منہدم کرنا ضروری ہے جس طرح مسجد میں اگر میت دفنائی جائے تو اس میت کو مسجد سے نکال لیا جاتاہے جیساکہ امام احمد وغیرہ سے منقول ہے لہٰذا دین اسلام میں مسجد اور قبر جمع نہیں ہوسکتیں ۔ مسجد یاقبر میں سے جسے بعد میں بنایا جائے گا اسے اُکھاڑنا ضروری ہے اور ایسی کسی مسجد میں نماز پڑھنا درست نہیں ،کیونکہ اللہ کے رسول نے اس سے منع کیاہے اور ایسا کرنے والے پر لعنت کی ہے۔“
٭ روضہٴ رسول کامسئلہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں دفن کیا گیا جس کا ایک دروازہ مسجد ِنبوی کی طرف کھلتا تھا۔عہد ِصحابہ اور عہد ِتابعین میں یہ حجرہ مسجدسے الگ ہی رہا او رصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حدیث ِنبوی کے مطابق آپ کو حجرے کی چار دیواری میں اسی لئے دفنایا تھا کہ وہاں لوگ سجدے اور نمازیں نہ پڑھیں ۔ولید بن عبدالملک کے دور (۸۸ھ) میں مسجد ِنبوی کی بقدرِ ضرورت توسیع کی گئی تو
[1] اس مضمون میں مسجد کو اس کے مسلمانوں کی عبادت گاہ کی بجائے مطلق سجدہ / عبادت گاہ کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے وگرنہ غیر مسلم کے عبادت خانے مسجد کی بجائے ’ کنیسہ ‘ کہلاتے ہیں ۔