کتاب: محدث شمارہ 259 - صفحہ 21
اسی طرح مشرکوں کی قبریں بھی ختم کرنا درست ہے کیونکہ مسجد ِنبوی اس مقام پر تعمیر کی گئی ہے جہاں اس سے قبل مشرکین کی قبریں تھیں ۔چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ِنبوی کی تعمیر کرتے ہوئے مشرکین کی قبریں ختم کردیں تھیں ۔ ( صحیح بخاری:۲۹۳۲)
یاد رہے کہ اسلام میں غیرمسلموں کی لاش کو وہ احترام حاصل نہیں جو ایک مسلمان میت کے لئے ہے۔ چنانچہ جنگ ِبدر میں ۲۴/مشرکین کی لاشوں کو گھسیٹ کر ایک گندے کنویں میں پھینک دیا گیا۔(پھرمٹی اور پتھروں سے کنوئیں کوپرکردیا گیا)۔(صحیح بخاری:۳۹۷۶،مسلم:۸/ ۱۶۴،احمد۳/۱۰۴)
چند استثنائی صورتیں
(۱) ”میدانِ جنگ میں شہید ہونے والوں کو شہادت گاہ میں ہی دفنایاجائے گا، کسی قبرستان منتقل کرنا درست نہیں ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
”جنگ ِاُحد کے روز لوگوں نے شہداء کوبقیع کے قبرستان میں لے جانے کے لئے سواریوں پر سوار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک شخص نے اعلان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ شہیدوں کو ان کی جائے شہادت پرہی دفن کرو۔“
(احمد:۳/۳۹۷، ابوداود:۱۵۳۳، بیہقی: ۲:۱۵۲)
(۲) انبیا جہاں فوت ہوں ، اسی جگہ انہیں دفن کیا جاتا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ
”جب اللہ کے رسول کی وفات ہوئی تو آپ کو دفن کرنے کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف پیدا ہوا۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ”میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے جو مجھے آج تک یاد ہے کہ اللہ تعالیٰ جس نبی کو جہاں دفن کرنا پسند فرماتے ہیں ، وہیں اس کی روح قبض فرماتے ہیں ۔“ لہٰذا نبی کریم کو آپ کے بستر والی جگہ پر دفن کیا گیا۔“
(ترمذی:۲/۱۲۹، ابن ماجہ:۱/۴۹۸، ابن سعد:۲/۷۱،موطأ:۱/۲۳۰)
گھروں کو قبرستان نہ بنایا جائے
(۱) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا :
” اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ اور میری قبر کو میلہ گاہ نہ بنانا، مجھ پر درود پڑھو یقینا تمہارا درود مجھ تک پہنچایا جائے گا تم جہاں کہیں بھی ہوئے۔“ (احمد:۱/۳۶۷، ابوداود:۲۰۴۲، عبدالرزاق: ۶۷۲۶، ابن ابی شیبہ :۱۱۸۱۸، صحیح الجامع الصغیر:۷۲۲۶)
(۲) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا: ”اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔ بلا شبہ شیطان اس گھر سے دور بھاگتا ہے جہاں سورةالبقرة پڑھی جائے۔“ (مسلم:۱۸۲۱)