کتاب: محدث شمارہ 259 - صفحہ 17
قرآن و سنت کی روشنی میں ہمار ی راہنمائی فرمائیں ۔ جواب: سنن ابوداود میں حدیث ہے: ”عن ابن عباس قال أن جارية بکرا أتت رسول اللَّه صلی اللَّہ علیہ وسلم فذکرت أن أباها زوجها وهی کارهة فخيرها النبی صلی اللَّہ علیہ وسلم (باب فی البکر يزوجها أبوها ولا يستأ مرها)‘‘ ” حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ذکر کیا کہ میرا نکاح میرے باپ نے میری مرضی کے خلاف کردیا ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اختیار دے دیا کہ اپنے نکاح کو فسخ کرے یا قائم رکھے ۔“ اور صحیح مسلم میں ہے کہ ”شادی شدہ عورت اپنے نفس کی ولی سے زیادہ حقدار ہے اور کنواری سے اس کا باپ اس کے نکاح میں اِذن مانگے اور اس کا اذن خاموشی ہے۔“ اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ صورت میں لڑکی نکاح ردّ کرسکتی ہے کیونکہ اس کی مرضی کے بغیر ہوا ہے اور پھر باپ نے اس پر زبردستی کی ہے جس کا اسے اختیار نہ تھا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں دو باب بایں الفاظ قائم کئے ہیں : باب لاينکح الأب وغيره البکر والثيب إلابرضاهما ”باپ وغیرہ کنواری اور بیوہ کا نکاح نہ کرے مگران دونوں کی رضا مندی سے۔“ باب إذا زوّج الرجل ابنته وهی کارهة فنکاحه مردود ”جب باپ اپنی بیٹی کا نکاح زبردستی کرے تو وہ مردود ہے۔“ اگر باپ حصولِ زر کا لالچی اور اولاد کا بدخواہ ہو تو اس کی ولایت ناقابل اعتبار ہے۔ طبرانی اوسط میں حدیث ہے : لانکاح إلا بولی مرشد أوسلطان۔ ہدایت والے وَلی یا سلطان کے بغیر نکاح نہیں ۔ بنا بریں اس کی جگہ بھائی ولی بن کر اپنی بہنوں کا نکاح دین دار افراد سے کرسکتا ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ اس بات کو خاندان کے ذمہ داروں یا چند دانا لوگوں کی موجودگی میں نکھار دیا جائے وگرنہ اولاد اپنی من مانی کے لئے ہر والد کو ’غیرمرشد‘ قرار دے کر فساد بھی پیدا کرسکتی ہے۔ جہاں تک طلاق کا معاملہ ہے تو راجح مسلک کے مطابق زبردستی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ حدیث میں ہے کہ ”میری اُمت سے خطا اور نسیان اور جس پر انہیں مجبور کیا جائے، ان کی ذمہ داری اٹھالی گئی ہے۔‘‘(ابن ماجہ وغیرہ) اس سے معلوم ہوا کہ جبراً طلاق واقع نہیں ہوتی۔ منتقی الاخبار میں اس قسم کی متعدد روایات موجود ہیں ۔مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو فتح الباری:۹/۳۹۰ علیحدگی کی صورت یہ ہے کہ عورت عدالت یا پنچایت وغیرہ میں اس عدمِ رضا کا اظہار کرے یہ کام اپنے آپ نہ کرے۔ جب عورت وَلی کے بغیر بذاتِ خود نکاح نہیں کرتی تو جدائی خود بخود کیونکر درست ہوگی حالانکہ جدائی کا معاملہ نکاح سے زیادہ نازک ہے۔ پس ضروری ہے کہ حسب ِاستطاعت باوثوق ذرائع سے علیحدگی ہو۔