کتاب: محدث شمارہ 259 - صفحہ 15
ہے کہ حالت ِقیام رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعدہاتھ سینے پر ہی باندھنے چاہئیں ۔ انہوں نے حضرت سہیل بن سعد رضی اللہ عنہ اور حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ (سنن ابوداود) کی احادیث سے استدلال کیا ہے۔
جواب: رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑ دینے چاہئیں ، ہاتھ باندھنے کی کوئی واضح اور صریح نص موجودنہیں ، ان حضرات کے دلائل کا انحصار غالباً عمومی عبارتوں پر ہے جو محل نزاع میں مفید نہیں ۔ اس بارے میں ہمارے استاذ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کا رسالہ ’ارسال اليدين بعد الرکوع‘ اور ’رفع الابهام‘ کے علاوہ پروفیسرحافظ عبداللہ بہاولپوری رحمۃ اللہ علیہ کے عربی و اردو رسائل ملاحظہ فرمائیں جو سوال اور جواب کی صورت میں ہیں ۔ ان کتب میں شیخ ابن باز وغیرہ حضرات کے دلائل کا بطریق احسن جواب دیا گیا ہے ۔
٭ سوال:سر میں تیل لگانا اور رات کو آنکھوں میں سرمہ لگانا سنت ِنبوی ہے یا نہیں ؟
جواب: حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے اپنے سر مبارک پر تیل لگایاکرتے تھے۔ (مختصر شمائل محمدیہ: باب ماجاء فی ترجل رسول اللَّه صلی اللَّہ علیہ وسلم )
رات کو آنکھوں میں سرمہ لگانے کا بھی احادیث میں ذکر ہے۔ (مختصر الشمائل المحمدیة: باب ماجاء فی کحل رسول اللَّه صلی اللَّہ علیہ وسلم اور منتقی الاخبار: باب الاکتحال و الادهان والتطيب)
٭ سوال: زیر ناف بالوں کی صفائی کیا حکم ہے، بال کہاں تک صاف کرنے چاہئیں ؟ کیا فضلہ کے مخرج کے گرد بال صاف کرنے جائز ہیں ؟
جواب: زیر ناف بالوں کا صاف کرنا ضروری ہے ،شرمگاہ کے اوپر اور قرب و جوار سے صفائی کی جائے، اسی طرح عورت کی شرم گاہ کے گرد بالوں کی صفائی بھی ضروری ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں : آگے پیچھے اور ان کے گرد صفائی کرنا مستحب ہے۔اسی طرح فتح الباری میں ہے : دُبر کے گرد بالوں کو صاف کرنا جائز ہے (۱۰/۳۴۳)۔ لیکن امام شوکانی فرماتے ہیں : دبر کے بالوں کی صفائی سنت سے ثابت نہیں ۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہونیل الاوطار: ۱/۱۲۴)
٭ سوال: ناخن کاٹنے کامسنون طریقہ کیا ہے؟
جواب: امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
”مستحب یہ ہے کہ پاؤں سے پہلے ہاتھوں کے ناخن اتارے جائیں ۔ دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی سے شروع کرکے چھوٹی انگلی کی طرف آئے پھر انگوٹھے کاناخن اتارے پھر بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے شروع کرکے آخر تک اتار دے۔ پھر دائیں پاؤں کی چھوٹی انگلی سے شروع کرے اور بائیں پاؤں کی چھوٹی انگلی پر ختم کرے۔“ (نیل الاوطار:۱/۱۲۴)
واضح ہو کہ یہ تفصیل کسی حدیث سے معلوم نہیں ہوسکی تاہم آپ کی عادتِ مبارک تھی کہ کام دائیں طرف سے شروع کرتے اور اس کے برخلاف بائیں طرف سے۔ (نیل الاوطار، سبل السلام)