کتاب: محدث شمارہ 259 - صفحہ 13
دار الافتاء حافظ ثناء اللہ مدنی
٭ حرمین کے علاوہ اعتکاف کا جواز ٭ مسئلہ رضاعت
٭ لڑکی کا رضامندی کے بغیر نکاح
٭ سوال:کیا اعتکاف بیٹھنا صرف مسجد ِحرام اور مسجد ِنبوی کے ساتھ خاص ہے یا ہر مسجد میں بیٹھا جاسکتا ہے؟ بعض لوگ﴿وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِیْ الْمَسَاجِدِ﴾سے مراد یہی دو مسجدیں لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تثنیہ پر بھی جمع کا صیغہ بول دیا جاتا ہے۔
جواب:اعتکاف مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے ساتھ مخصوص نہیں ، اس آیت میں جمع کا اطلاق دو پر کرنا بھی بلادلیل ہے بلکہ آیت ﴿وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِیْ الْمَسَاجِدِ﴾(البقرة: ۱۸۷) کے عموم کی بنا پر تمام مسجدوں میں اعتکاف کاجواز ہے۔ امام بخاری کی بھی یہی رائے ہے چنانچہ وہ اپنی ’صحیح‘ میں فرماتے ہیں:
باب الاعتکاف فی العشر الأواخر والاعتکاف في المساجد کلها لقوله تعالٰی ﴿وَلاَتُبَاشِرُوْهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِیْ الْمَسَاجِدِ﴾ … الخ“
اس میں مساجد کے ساتھ کُلِّہَا کے اضافہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام مسجدوں میں اعتکاف کا جواز ہے۔ اور تفسیر کشاف (۱/۲۵۸) میں اسی آیت کے تحت بیان ہوا ہے
فيه دليل علی أن الاعتکاف لايکون إلا فی مسجد وأنه لا يختص به مسجد دون مسجد
”اس میں اس امر کی دلیل ہے کہ مسجد کے بغیر اعتکاف ناجائز ہے۔ اور یہ کسی مسجد کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ سب مسجدوں میں جائز ہے۔“
امام قرطبی نے یہی بات سلف کی ایک جماعت سے نقل کی ہے۔ (تفسیر قرطبی :۲/۳۳۳)
فقیہ ابن رشد نے کہا: فمن رجح العموم، قال: في کل مسجد علی ظاهر الاٰية (بداية المجتهد: ۱/۳۱۳) ”جس نے عموم کو ترجیح دی ہے ، اس نے کہا کہ ظاہر آیت کی بنا پر ہر مسجد میں اعتکاف کا جواز ہے۔“
٭ سوال: میری خالہ کی عدم موجودگی میں میری والدہ نے میری خالہ زاد کو رونے سے چپ کرانے کیلئے جبکہ اس وقت اس کی عمر ڈیڑھ برس تھی،اپنا دودھ صرف ایک بار پلایاتاکہ میری خالہ زاد رونے کی بجائے چپ کرجائے۔کیا اس خالہ زاد سے میرا نکاح ہوسکتا ہے، جبکہ دونوں خاندان اس کے بہت متمنی ہیں ۔
جواب: ایسی صورت میں حرمت ثابت نہیں ہوتی، حدیث میں ہے لاتحرم الرضعة أو الرضعتان(مسلم:۳۵۷۸) رضعة کے معنی ہیں : ایک دفعہ دودھ پینا، جس کی صورت یہ ہے کہ بچہ