کتاب: محدث شمارہ 259 - صفحہ 12
” جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کیلئے پانی مانگا تو ہم نے کہا، اپنی لاٹھی کے ساتھ پتھر کو مار“
سادساً:اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو بنی اسرائیل (یہود و نصاریٰ) تھے،ان پریہ احسان جتلایاگیا ہے تو وہ ضرور اس آیت کا صحیح معنی سمجھے ہوں گے کیونکہ اگر وہ بھی نہیں سمجھ سکے تو ان پر احسان جتانا ہی فضول ہے۔ پس جب وہ صحیح سمجھے تو صحابہ رضی اللہ عنہم کی سمجھ کو کس شے نے غلطی میں ڈال دیا۔
سابعاً [1]: اسلئے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے بہت لوگ بنی اسرائیل بھی تھے تو بنی اسرائیل کا صحیح سمجھنا گویا صحابہ رضی اللہ عنہم کا صحیح سمجھنا ہے۔ اگر کہا جائے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے جو بنی اسرائیل تھے وہ تو صحیح سمجھے اور باقی غلط تو اس کی بابت عرض ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے اختلاف منقول ( نہیں ۔ (انتخاب: ’درایت ِتفسیری‘ از محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ ص ۱۶ تا ۲۱)
[1] چھٹی اور ساتویں وجہ خاص شق ثانی کے ابطال میں نہیں بلکہ عام ہیں یعنی پہلی شق کو بھی شامل ہیں ۔
[2] ایک شبہ کی وضاحت : بعض لوگ ناواقفیت سے کہہ دیا کرتے ہیں کہ کسی شے کا ذکر نہ ہونا اس شے کے واقع نہ ہونے کی دلیل نہیں یا کسی شے کا نہ ملنا اس شے کے واقع نہ ہونے کی دلیل نہیں ۔(عدمِ ذکر ِدلیل عدمِ وِجدان نہیں یا عدمِ وجدان دلیل عدمِ وقوع نہیں )۔ تو یہ کم علموں کا سا استدلال ہے کہ ایک آدھ بات سیکھ کر اس کو ہر جگہ استعمال کرتے ہیں ۔
یہ مقدمہ فی نفسہا اگرچہ صادق ہے مگر اس کا اِستعمال اسی موقع پر کارآمد ہے جہاں بے کا رشبہات اور ضعیف احتمالات کو ترجیح ہوتی ہے۔مثلاً حدود قصاص میں ایسی صورت واقع ہوجائے تو وہاں یہ مقدمہ مفید ہوگا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : اِدْرَؤُا الْحُدُوْدَ بِالشُّبْھَاتِ(حدود کو شبہات کے ساتھ دور کرو) اور جہاں ظاہر پر عمل کیا جاتاہے، وہاں ایسے مقدمات سے دلیل لینا نادانی ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص کہے کہ میلاد نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ،نہ کرایا، نہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا، نہ کرایا ، نہ تابعین نے کیا ،نہ کرایا اور نہ تبع تابعین نے کیا، نہ کرایا تو اس موقع پر کسی صاحب ِبدعت کو یہ کہنے کی مجال نہ ہوگی کہ عدمِ وجدان دلیل عدمِ وقوع نہیں ، شائد کسی نے کیا ہی ہو مگر ہم تک نہیں پہنچا۔ اسی طرح ختم اوردیگر بدعات پر کوئی صاحب اس استدلال سے تمسّک نہیں کرسکتا۔
اسی طرح مسئلہ حکم العام أن یتناول جمیع الأفراد : لفظ عام سے تمام افرا د مراد ہوتے ہیں جیسے ﴿یٰأیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا﴾سے تمام مراد ہیں ، یہ اصول حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک متفق علیہ ہے کیونکہ اختلاف منقول نہیں ۔
اسی طرح مسئلہ کل حکم یخاطب بہ المنکر یجب توکیدہ ( جو شخص کسی بات سے انکاری ہو تو اگراس کے ساتھ بات کریں تو قسم وغیرہ سے بات کرنی چاہئے۔) علماء معانی کے نزدیک متفق علیہ ہے ۔
اسی طرح یہ اصول کہ کل جملۃ تقع خبراً أوصفۃً لا بدّ فیھا من العائد اہل نحوکے نزدیک متفق علیہ ہے۔
اسی طرح مسئلہ ما في البخاری ومسلم من الأحادیث اتفق العلماء علی صحتھا علماء کے نزدیک متفقہ ہے
اسی طرح مسئلہ خبر الواحد یجب العمل بہ ولا یکفر جاحدہ …
اسی طرح مسئلہ کل ما أخرجہ الراوي بلفظۃ نُھینا أو اُمرنا أوکنا نفعل والقرآن ینزل أومثل ذلک فھو فی حکم المرفوع اور اس طرح کی متعدد مثالیں بھی ہیں ۔
الغرض مسائل جملہ علوم کے اتفاقی اور اختلافی ہونے کی بنیاد یہی ہے کہ جس مسئلہ میں اختلاف منقول ہے، وہ اختلافی ہے اور جس میں اختلاف منقول نہیں ، وہ اتفاقی ہے ۔ اگر ایسے تمام موقعوں پر اوپر درج شدہ استدلال ہی پکڑا جائے تو جملہ علوم درہم برہم ہوجائیں گے۔ (روپڑی رحمۃ اللہ علیہ )