کتاب: محدث شمارہ 259 - صفحہ 11
کافی تھا تو اگر کسی وقت ان کا دل دھوپ کو چاہتا تھا تو دھوپ سے یہی فائدہ اُٹھا سکتے تھے۔ ثالثا ً: اسلئے کہ جو اعتراض آپ سلف کی تفسیر پرکرتے ہیں ، وہی اعتراض آپ کی تفسیر پر بھی ہوسکتا ہے کیونکہ جس طرح بارہ مہینے ابر کا سایہ باعث ِتکلیف ہے، اسی طرح بارہ مہینے بارش بھی باعث ِتکلیف ہے بلکہ سایہ تو انسان برداشت کرسکتا ہے، بارش کو برداشت کرنا مشکل ہے۔اگر اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ وقتاً فوقتاً حسب ِضرورت ان پر بارش ہوتی تھی تو یہی ابر کے سایہ کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے۔ رابعاً : اس لئے کہ بارش کے اصل فائدہ (یعنی اناج وغیرہ کا پیدا ہونا) سے تو وہ محروم تھے، اسی واسطے انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا ﴿لَنْ نَّصْبِرَ عَلیٰ طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الاَرْضُ مِنْ بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُوْمِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا …الاية﴾ یعنی ”ہم ایک کھانے پر صبر نہیں کرسکتے، خدا سے دعا مانگ کہ ہمارے لئے ساگ، ککڑی، گیہوں اورمسور وغیرہ زمین سے پیدا کرے“ اگر یہ چیزیں وہاں پیدا ہوتیں تو موسیٰ علیہ السلام کو دعا کے لئے نہ کہتے اور موسیٰ علیہ السلام ان کو یہ جوا ب نہ دیتے کہ ان چیزوں کے لئے خدا سے دعا مانگنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ چیزیں شہروں میں مل سکتی ہیں ۔ جب بارش کے اصل فائدہ سے محروم تھے تو بارش کیوں ہوتی تھی؟ اگر گرمی دورکرنے کے لئے ہوتی تھی جیسا کہ معروف ہے تو یہ بات ظاہرہے کہ بارش کے ساتھ دو چار روز آرام رہتا ہے پھر دھوپ کی وجہ سے ویسی ہی حالت ہوجاتی ہے بلکہ زمین جب اپنے بخارات چھوڑ دیتی ہے تو تکلیف مزید بڑھ جاتی ہے۔ پھر ان دوچار روز کے آرام کے ساتھ بارش کی تکلیف کتنی ہے خصوصاً جنگل والوں کو۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اسلام کی ابتدائی پرصعوبت حالت کو بارش کے ساتھ تشبیہ دی ہے[1]چنانچہ فرماتا ہے: ﴿اَوْ کَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيْهِ ظُلُمَاتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌ يَّجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْ اٰذَانِهِمْ مَّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ﴾ (البقرة: ۱۹) ”یا مانند بارش کے جس میں اندھیرے اور گرج اور بجلی ہے، لوگ موت کے ڈر سے انگلیاں کانوں میں رکھتے ہیں ۔“ اور اگر کسی اور غرض سے ہوتی تھی تو اس کو بیان کرکے تاریخ وغیرہ سے اس کا حوالہ دے دینا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس بارش کومحل احسان میں ذکر فرمایاہے اور احسان اسی وقت درست ہوسکتا ہے جب اس کا کوئی معقول فائدہ بتایا جائے ورنہ ایسی بارش تو سوائے تکلیف کے کچھ فائدہ نہیں رکھتی۔ خامساً : اس لئے کہ اگر ان پر بارش ہوتی تو موسیٰ علیہ السلام سے پانی کیوں مانگتے ، جبکہ انہوں نے پانی مانگا، اللہ تعالیٰ فرماتاہے: ﴿وَاِذِ اسْتَسْقیٰ مُوْسیٰ لِقَوْمِه فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْحَجَر، الاية﴾ (البقرة : ۶۰)
[1] یہ تشبیہ اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ابتداء اسلام میں ایسی تکالیف ہوتی ہیں جیسے ابتدائے بارش میں ۔ کیونکہ ابتدامیں اسلام غریب ہوتا ہے اور اس کے مددگار بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور مخالفین زیادہ ۔