کتاب: محدث شمارہ 259 - صفحہ 10
کتاب وحکمت حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ بنی اسرائیل پر ۴۰ برس سایہ رہا یا بارش؟ قرآنِ کریم کی آیت﴿وَظَلَّلْنَا عَلَيْکُمُ الْغَمَامَ﴾ کی تفسیر ان دنوں بعض مفسرین نے اس طرز پر کی ہے جو تفسیرسلف کے مخالف ہے۔چنا نچہ ایک نامور مفسرآیت ِکریمہ ﴿وَظَلَّلْنَا عَلَيْکُمُ الْغَمَامَ﴾ (البقرة:۵۷) کی تفسیر میں لکھتے ہیں : فی واد التيه أی أرسلنا السماء عليکم مدرارا لأن بني إسرائيل أقاموا فی واد التيه أربعين سنة فکيف يکون المراد الظل المعروف فافهم لقوله تعالی ﴿فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أرْبَعِيْنَ سَنَةً﴾ ”ہم (اللہ) نے جنگل میں بنی اسرائیل پر بارش اُتاری … جو لوگ سایہ کا معنی کرتے ہیں وہ صحیح نہیں کیونکہ بنی اسرائیل جنگل میں چالیس سال ٹھہرے تو سایہ کا معنی کیسے صحیح ہوسکتا ہے اللہ فرماتا ہے ﴿فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أرْبَعِيْنَ سَنَةً﴾ یعنی شام کی زمین ان پر چالیس سال حرام ہے۔“ فکيف يکون المراد الظلّ المعروف“ سے اشارہ کرتے ہیں کہ جو معنی صحابہ رضی اللہ عنہم نے کئے ہیں کہ ”بنی اسرائیل بیابان میں جب گرمی سے تنگ آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ابر کا ٹھنڈا سایہ کیا اور یہ موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا“… وہ غلط ہیں ۔ غلط ہونے کی جو وجہ بیان کی گئی ہے، اس میں دو احتمال ہیں : یا تو یہ مطلب ہے کہ بنی اسرائیل جنگل میں چالیس سال رہے تو اتنی مدت ابر کا سایہ ہونا عادةً ناممکن ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ ابر کا سایہ تو ان پر آرام کی خاطر ہوا تھا اور چایس سال تک ابر کا سایہ رہنا باعث ِراحت نہیں بلکہ باعث ِتکلیف ہے کیونکہ کسی وقت انسان کا دل دھوپ کو بھی چاہتا ہے۔ اگر پہلا احتمال ہو تو تمام معجزات سے اِنکار لازم آئے گا کیونکہ معجزہ کہتے ہی اسے ہیں جو عادةً ناممکن ہے ۔ اس کے علاوہ ہم کہتے ہیں کہ وہاں کثرت سے بارش ہونا ، یہ بھی عادة ًناممکن ہے کیونکہ اس ملک (مصر کے علاقہ) میں بارش نہیں ہوتی۔ اگر دوسرا احتمال ہو تو یہ بھی صحیح نہیں ، اوّلاً : اس لئے کہ جن ملکوں میں بارہ مہینے گرمی رہتی ہے یا متوسط ہیں ، ان میں بارہ مہینے سایہ باعث ِراحت ہے۔ ثانیاً : ا س لئے کہ کسی روایت میں یہ وارد نہیں ہوا کہ سایہ تمام جنگل میں تھا۔ممکن ہے کہ بہت جگہ دھوپ ہو بلکہ ظاہر یہی ہے کہ کیونکہ تمام جنگل میں سایہ کی کیا ضرورت تھی، صرف ان کے ڈیروں پرسایہ ہونا