کتاب: محدث لاہور 258 - صفحہ 9
تیار ہیں ۔ کانگریس اورچند دیگر جماعتیں جو ’سیکولر ازم‘کی علمبردار ہیں اور رنگ،نسل اور مذہب کے امتیازات پر یقین نہ رکھنے کا دعویٰ کرتی ہیں ، ان کا طرزِ عمل بھی یہ رہا ہے کہ جب بھی مسلمان کبھی ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے تو ان کی اس آواز کو فرقہ وارانہ شرانگیزی کا نام دے کر دبا دیا جاتا۔ جب بھی انہوں نے کسی سیاسی جماعت یا کمیٹی کے قیام کا منصوبہ بنایا، کانگریس نے بھی اسے ’نئے پاکستان‘ کے حصول کا نام دے کر اس کو آغاز ہی میں ابھرنے نہ دیا۔
بھارت میں ہندو اپنے مذہبی نظریات کے مطابق سیاسی جماعتیں بنانے میں آزاد رہے ہیں ۔سیکولر ازم کے دعوؤں کے باوجود کانگریس نے کبھی راشٹریہ سیوک سنگھ، ویشوا ہندو پریشد، شیو سینا، جینا سنگھ اور پری وار جیسی جنونی مذہبی سیاسی جماعتوں کے سرگرمیوں پرپابندی نہ لگائی مگر تقسیم کے بعد بچی کچھی مسلم لیگ کو کسی بھی جگہ کام نہ کرنے دیا۔ قیامِ پاکستان کو بھارت ماتا کی تقسیم قرار دے کر مسلم لیگ کے وجود کو بھارت میں نیست و نابود کردیا گیا۔ سیدابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگراکابرین ملت کی کاوشوں سے کافی دیر تک ’مجلس مشاورت‘کام کرتی رہی جس کا بنیادی مقصد قومی آہنگی قائم کرنا اور مسلمانوں کے مطالبات کو حکومت کے نوٹس میں لانا تھا، ۱۹۷۸ء میں ’مسلم مجلس‘ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ یہ مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی تنظیموں کا ایک متحدہ پلیٹ فارم تھا، مگر ہندو اکثریت کی ریشہ دوانیوں سے اسے بھی کام کرنے کا موقع نہ ملا۔ موجودہ صورتحال میں بھارتی مسلمانوں کے لئے ہمارے خیال میں درج ذیل لائحہ عمل پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے :
۱۔اوّلین بات یہ ہے کہ مسلمان ایک سیاسی جماعت کا قیام عمل میں لائیں جس کی سرگرمیوں کا دائرہ کسی ایک خاص صوبہ کی بجائے پورے بھارت پر محیط ہو، بھارتیہ جنتا پارٹی اگر سیکولر بھارت میں ہندوؤں کے مفادات کے تحفظ کے نام پر اقتدار میں آسکتی ہے اور اس کی سرگرمیوں سے بھارت کا سیکولر تشخص مجروح نہیں ہوتا تو پھر مسلمانوں کو اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے ایک جماعت کے قیام پر فرقہ وارانہ خیالات کے پرچار کا طعنہ نہیں دیا جاسکتا۔ ماضی میں کانگریس او رحال میں بی جے پی کا طرزِ عمل مسلمانوں کے سامنے ہے۔ وہ کسی بھی ہندو اکثریت پر مبنی سیاسی جماعت پر اعتماد کریں گے تو دھوکہ ہی کھائیں گے۔
۲۔بھارتی مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد کا مرکزی نقطہ ہندو اکثریت سے تصادم و تحارب سے اجتناب کرتے ہوئے مسلمانوں میں اپنی قومی ذمہ داریوں کے متعلق آگاہی اور شعور پیدا کرنا ہونا چاہئے․
۳۔بھارتی مسلمانوں کو مخلوط طریق انتخابات کی بجائے جداگانہ طریق انتخابات کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ ہندو اکثریت کی سال بہ سال بڑھتی تنگ نظری اور تشدد پر مبنی پالیسی کی وجہ سے مخلوط انتخابات