کتاب: محدث لاہور 258 - صفحہ 7
آمیز انداز میں کانفرنس کے دوران ہی میں واپس لوٹنا پڑا۔ اس کانفرنس میں عالم اسلام کے راہنماؤں نے بھارتی حکومت کی شدید مذمت کی اور اسے مسلمانوں کے جان ومال کے تحفظ میں ناکام رہنے کا الزام دیا۔ کانفرنس میں احتجاج کا ایسا اثر ہوا کہ مراکش اور اُردن نے اپنے ممالک سے بھارتی سفیروں کو واپس بھجوا دیا۔ان فسادات کے تھوڑے عرصے بعد پاکستان سے سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان بھی انڈیا پہنچے۔ انہوں نے مہاتما گاندھی کے ’اتباع‘ میں احمد آباد کے فسادات میں ہلاک ہونے والوں کے غم میں تین دن تک مرن بھرت کیا۔ مسلمانوں کی طرف سے احتجاج کے ان واقعات نے بھارتی ہندو قیادت کو کافی حد تک پریشان کیا۔ فساد زدہ علاقوں میں افواج کی تعداد بڑھا دی گئی۔ خطرناک علاقوں میں رات کو کرفیو کا دورانیہ بڑھا دیا گیا۔ “(’مجہول آوازیں ‘ از کے ایل گابا)
مگر آج کیا صورتحال ہے۔ گذشتہ دس روز کے اخبارات اٹھا دیکھئے، ان کے صفحات احمدآباد کے مسلمانوں کی بے گوروکفن لاشوں اور زخمیوں کی تصویروں سے بھرے پڑے ہیں ۔ اگر کوئی خبر نہیں نظر آئی تو صرف یہ ہے کہ عالم اسلام کے حکمرانوں کی طرف سے بھارت کی خدمت میں بیانات کا تذکرہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش واحد ملک ہے جس کی خاتون وزیراعظم نے مسلم کش فسادات پر سخت رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔
فسادات کی ذمہ دار، بھارتی حکومت
اب تک آزاد ذرائع ابلاغ نے جو کچھ رپورٹ کیا ہے، اس کی روشنی میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ بھارتی حکومت صوبہ گجرات میں مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ بھارتی صوبہ گجرات میں خالصتاً بی جے پی کی حکومت ہے۔ وہاں کی صوبائی حکومت انتہا پسند ہندوؤں کی مکمل پشت پناہی کرتی رہی ہے۔ پولیس کی موجودگی میں مسلمانوں کو زندہ جلایا جاتا رہا ہے۔ فوج کو بروقت نہیں بلایا گیا، حتیٰ کہ ایسی رپورٹ بھی شائع ہوئی ہیں کہ کرفیو کے دوران بھی بلوائیوں نے مسلمانوں کے گھروں کو نذرِ آتش کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ احمد آباد میں فسادات کے پہلے ۷۲ گھنٹوں میں ۳۰۰ سے زیادہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ ٹائمز آف انڈیا، بھارتی انسانی حقوق کمیشن، حیدر آباد دکن سے شائع ہونے والے روزنامہ ’سیاست‘، وائس آف جرمنی، بی بی سی حتیٰ کہ امریکہ نے بھی قرار دیا کہ بھارتی حکومت اقلیتوں کے جان، مال کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔ احمدآباد کے مسلم کش فسادات میں زیادہ تر خون ریزی ویشوا ہندوپریشد کے تربیت یافتہ غنڈوں نے کی او ریہ انتہا پسند ہندو تنظیم بی جے پی کی سب سے بڑی حلیف ہے۔ واجپائی حکومت کی اصل قوت ویشواہندو پریشد اور راشٹریہ سیوک