کتاب: محدث لاہور 258 - صفحہ 6
کو قتل کیا جاتا ہے۔ مسلمان انسان ہوتے تو دنیا ان کے انسانی حقوق کا تحفظ بھی کرتی۔ عالمی ضمیر کے آئینے میں صرف ان انسانی حقوق کی تصویریں منعکس ہوتی ہیں جو عیسائیوں ، یہودیوں اور دیگر غیرمسلموں کے خون کی لکیروں سے بنتی ہیں ، مسلمانوں کا خون تو اس قدر سیاہی مائل ہے کہ اس کے پڑتے ہی عالمی ضمیر کا آئینہ سنگ خارا کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ صدرِ جنرل پرویز مشرف کے بیانات سے ہندو جنونیوں کی درندگی میں کمی آئی ہے، نہ بھارتی حکومت نے اس کا اثر قبول کیا ہے، مگر یہ بات خوش آئند ہے کہ جنابِ صدر کو جلد ہی احساس ہوگیا ہے کہ مسلمان ایک دوسرے سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتے۔ ۱۲/ جنوری کی معروف تقریر میں انہوں نے فرمایا تھا کہ دنیا میں جہاں کوئی واقعہ ہوتا ہے، پاکستانی مسلمان خوامخواہ اس میں کود پڑتے ہیں ۔ مگر اب وہ خود ہی جب بھارت سے فسادات بند کرانے اور دنیا کو ان فسادات کا نوٹس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں تو انہوں نے بتا دیا ہے کہ بعض واقعات ایسے خونچکاں ہوتے ہیں کہ مسلمان اپنے ہم مذہب بھائیوں کا قتل عام دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتا۔ کہیں نہ کہیں تو کودنا پڑتا ہی ہے، وہ قندھار او ر کابل کی زمین پر خونِ مسلم کی بہتی ندیاں ہوں یا احمدآباد کی گلیوں میں مسلمانوں کے خون کا دریا ہو۔ ۱۹۶۹ء میں احمدآباد میں ہونے والے بدترین مسلم کش فسادات میں معروف دانشور صحافی کے ایل گابا کے بیان کے مطابق چھ ہزار مسلمان مارے گئے تھے اور ۳۰ ہزار مسلمان گھروں سے اُجاڑ دیئے گئے تھے، ہزاروں کی تعداد میں لوگ کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے کہ کوئی اور جائے پناہ نہ تھی۔ آج سے ۳۴ برس پہلے مسلمانوں میں ’پان اسلام ازم‘کی اچھی خاصی رمق باقی تھی۔ ابھی اُمت ِمسلمہ کی کوکھ مکمل طور پر بانجھ نہیں ہوئی تھی ، ابھی شاہ فیصل شہید جیسے اس کے غیور و جسور بیٹے زندہ تھے۔ احمد آباد کے فسادات کے چند ماہ بعد ۱۹۷۰ء میں مراکش کے شہر ’رباط‘ میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی تو سیکولر زم کا فریب انگیز دعویٰ کرنے والے بھارت نے مطالبہ کیا کہ اس کانفرنس میں بھارتی وفد کو بھی شریک ہونے کی دعوت دی جائے کیونکہ بھارت میں مسلمانوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ سوائے انڈونیشیا اور پاکستان کے دوسرے کسی مسلمان ملک میں اس قدر مسلمان آباد نہیں ہیں۔ انڈیا کی یہ درخواست منظور ی کے بعد آٹھ رکنی بھارتی وفد جس میں صرف تین مسلمان اراکین تھے، رباط کانفرنس میں شریک ہوا۔ مسلمان زخم خوردہ تھے مگر انہوں نے اس وفد کو خوش آمدید کہا، مگر اس دوران ہندوستان نے یہ حرکت کی کہ اعلان کردیا کہ رباط کانفرنس میں احمد آباد کے فسادات میں ہلاک ہونے والوں کے متعلق اس وفد سے کسی قسم کا سوال جواب بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت سمجھا جائے گا۔ یہ اعلان سنتے ہی اس بھارتی وفد پر رباط کانفرنس کے دروازے بند کردیئے گئے اور بھارت کے سرکاری وفد کو بے حد ذلت