کتاب: محدث لاہور 258 - صفحہ 3
جس مزاج کی ضرورت ہوتی ہے، اس کو تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں ۔ روح کا تو ذکر ہی کیا، ہم تو آئین کے الفاظ پر عملدرآمد نہیں کراسکے۔“
(ڈان: ۹/ مارچ ۲۰۰۲ء)
ہم محض یہ کہہ کر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے کہ دو قومی نظریہ ایک آفاقی صداقت ہے۔ اس عظیم نظریہ کا تقاضا ہے کہ ہم بھارتی مسلمانوں کے ساتھ عملی طور پر یکجہتی کا اظہار کریں ۔ دوریاستوں کے الگ الگ شہری ہونے کے باوجود پاکستان اور بھارت کے مسلمان ایک ہی ملت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یوں تو پاکستانی مسلمان پوری دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ دینی رشتے میں منسلک ہیں ۔ مگر ہندوستان کے مسلمانوں سے ہمارے نسلی، خونی اور لسانی رشتے بھی بہت گہرے ہیں ۔ ہماری تاریخ، ثقافت اور علاقائی اسلاف ایک ہیں ، اب بھی لاکھوں پاکستانی ایسے ہیں جن کے قریبی عزیز و اقارب انڈیا میں رہتے ہیں ۔ برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کے عظیم تہذیبی و علمی مراکز اس وقت تک انڈیا میں ہیں ۔ دہلی کی سرخ پتھروں والی جامع مسجد ہو یا لاہور کی شاہی مسجد، دونوں ایک ہی روایت کے دو نام ہیں ۔ علی گڑھ، آگرہ، فیض آباد، لکھنوٴ، الٰہ آباد، دہلی، رام پور، بھوپال، حیدر آباد دکن، میسور اوراحمد آباد کا نام سنتے ہی مسلمانوں کی شاندار تاریخی فتوحات اور تہذیبی کارناموں کے روشن چراغ ذہن میں جگمگانا شروع کردیتے ہیں ۔ تحریک ِپاکستان کے دوران سب سے زیادہ کردار جن علاقوں کے مسلمانوں نے ادا کیا وہ اس وقت بھارت میں ہیں ۔ اگر ہم آج ہندوؤں کی غلامی سے آزاد ہوکر ایک آزاد ریاست میں ہر طرح کی نعمتوں سے متمتع ہورہے ہیں ، تو اس کا سب سے زیادہ کریڈٹ ان مسلمانوں کو جاتا ہے جن کی قربانیوں کا حقیقی ثمر ہم کھا رہے ہیں۔ قومی سطح پر اس سے بڑھ کر احسان فراموشی اور اجتماعی بے حمیتی کوئی اور نہ ہوگی کہ ہم بھارت کے مسلمانوں کو فراموش کردیں !!
موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں ، ان کا یہ فرض ہے کہ وہ ان مسلمان بھائیوں کو یونہی تنہا نہ چھوڑ دیں جو بھارت میں ہندو اکثریت کے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں ۔ قیامِ پاکستان کا بنیادی مقصد پورے برصغیر کے مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔ پاکستان کے قیام کا مقصد اُدھورا رہے گا، اگر ہم مسلمانوں کے مفادات کو پاکستان کی علاقائی حدود تک محدود کردیں ۔
قائداعظم جب تک زندہ رہے، وہ ہمیشہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے تحفظ کے متعلق فکرمند رہے اوران کی حمایت میں بھرپور آواز اٹھاتے رہے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کا وہ مکا اب تک مشہور ہے جو انہوں نے لاہور میں اس وقت لہرایا تھا جب بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوگیا۔ انہوں نے نہایت سخت الفاظ میں جواہر لال نہرو کو دھمکی دی تھی کہ وہ مسلمانوں کا قتل عام بند کرائیں ۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کی اسی قومی حمیت کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان