کتاب: محدث لاہور 258 - صفحہ 28
انفرادیت کو ختم کرنے کا کیا مطلب؟ ان کی ترقی کا راز تو علم وہنر، ان کی محنت اور لگن، امانت و دیانت اور انتھک جدوجہد میں مضمر ہے۔علامہ اقبال رحمہ اللہ نے، جنہوں نے خود مغرب میں رہ کر ہر چیز کا مشاہدہ کیا تھا، وہ یورپ کی ترقی پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں :
قوتِ مغرب نہ از چنگ و رباب نے ز رقص دختراں بے حجاب
نے ز سحر ساحران لالہ رو است نے ز عریاں ساق و نے از قطع مو است
محکمی او نہ از لادینی است نے فروغش از خط لاطینی است
قوتِ افرنگ از علم و فن است از ہمیں آتش چراغش روشن است
حکمت از قطع و برید جامہ نیست مانع علم و ہنر عمامہ نیست
ہماری پستی اور کمزوری کے یہ چند اسباب ہیں ۔ جب تک ہم اپنی مذکورہ کمزوریوں کا ازالہ نہیں کریں گے اور مذکورہ خطوط پر اپنی پالیسیوں کو استوار نہیں کریں گے، ہم موجودہ تہذیبی تصادم میں اپنا وہ عالمی کردار ادا نہیں کرسکیں گے جو ہماری عظمت ِرفتہ کابھی آئینہ دار ہو اور وشن مستقبل کا مظہر بھی۔ بقولِ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ۔
اٹھو! وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی دوڑو! زمانہ چال قیامت کی چل گیا
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ’اہل اسلام‘ تمہاری داسان تک نہ ہوگی داستانوں میں
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہٴ محشر میں ہے پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر
جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہوگئی اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہگذر
تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں ٭
ناموس ازل راہ تو امینی تو امینی! دار اے جہاں را تو یساری تو یمینی
اے بندہٴ خاکی تو زمانی تو زمینی صہبائے یقیں درکش و از دیر گماں خیز
از خواب گراں ، خواب گراں ، خواب خیز! از خواب گراں خیز!
فریاد زافرنگ و دل اویزئ افرنگ فریاد زشیرینی و پرویزئ افرنگ
عالم ہمہ ویرانہ زچنگیزئ افرنگ معمار حرم! باز بہ تعمیر جہاں خیز
از خواب گراں ، خواب گراں ، خواب گراں خیز! از خواب گراں خیز!