کتاب: محدث لاہور 258 - صفحہ 26
ان مثالوں سے مقصد اس نکتے کی وضاحت ہے کہ عالم اسلام اپنے دفاع سے یکسر غافل ہے۔ حالانکہ قرآنِ کریم میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے:
﴿وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهِ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ﴾ (التوبہ:۸/۶۰)
”جتنی طاقت تم تیار کرسکتے ہو، تیار کرو اور گھوڑے بھی باندھے ہوئے تیار رکھو، تم اس کے ذریعے سے اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کو ڈراؤ“
حدیث میں آتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ألا إن القوة الرمی، ألا إن القوة الرمی، ألا إن القوة الرمی(صحیح مسلم، کتاب الامارة، باب فصل الرمی و الحث عليه… حدیث ۱۹۱۷)
”سن لو! قوت سے مراد تیر اندازی ہے، قوت سے مراد تیر اندازی ہے، قوت سے مراد تیراندازی ہے“
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قوت سے مراد تیراندازی لی ہے۔ گویا اس طرح تیراندازی کے سیکھنے کی اہمیت کو واضح فرمایا، کیونکہ اس وقت جنگ میں تیراندازی ہی سب سے بڑا ہتھیار تھا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ قرآن کریم میں قوت تیار کرنے اور قوت مہیا رکھنے کا جو حکم ہے تو اس سے مراد اپنے وقت کے وہ ہتھیار اور اسلحی وسائل ہیں جو جنگ میں زیادہ سے زیادہ موٴثر اور دشمن کو زیر کرنے میں کارگر ہوسکتے ہیں ۔اس اعتبار سے آج کل بری، بحری اور فضائی تینوں شعبوں میں جو نئے نئے ہتھیار تیار ہوئے ہیں ، بے آواز جہاز سے لے کر میزائل اور ایٹم بم اور ہائیڈروجن بموں تک تمام ہتھیاروں کی تیاری اور انہیں مہیا کرکے اپنے پاس رکھنا ضروری ہے، یہ قرآن کا اور پیغمبر اسلام کا فرمان ہے۔ اسی لئے علماے اسلام کامتفقہ موقف ہے کہ سی ٹی بی ٹی پر دستخط نہ کئے جائیں کیونکہ ایٹمی قوت کے حصول اوراس میں پیش رفت، حکم قرآنی کا تقاضا ہے اور اس سے انحراف قرآن و حدیث کی تصریحات کے خلاف ہے۔
لیکن افسوس مسلمان ممالک اس حکم قرآنی سے غافل رہے اور غافل ہیں ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ آج امریکہ اور اس کے اتحادی جو چاہیں کریں ، مسلمان ممالک اس کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہیں ۔ وہ اس کے حکم سے سرتابی کرنے کی ہمت نہیں رکھتے، وہ ملت ِاسلامیہ کے عظیم مجاہد اور ہیرو کو دہشت گرد کہیں ، وہ اسلام کے ایک بے داغ اور مثالی حکمراں کو دہشت گردوں کا پشتیبان قرار دیں تو ہمارے اندر ان سے اختلاف کرنے کی ہمت نہیں ، وہ ان دونوں پر چڑھ دوڑیں اور ان کے ساتھ دیگر بہت سے معصوم اور بے گناہوں پر تابڑ توڑ حملے کریں تو ہم اس مسلم کشی میں ان کے دست و باز بن جائیں اور اپنا سب کچھ ان کی خدمت میں پیش کردیں جیسا کہ المیہ افغانستان کے پس منظر میں بیگانوں کی ستم رانی کے ساتھ اپنوں کی