کتاب: محدث لاہور 258 - صفحہ 25
میں وہ ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کے باشندگان کی تعداد بھی ۳۰ لاکھ سے زیادہ نہیں ہے، جب کہ عرب ۱۱/کروڑ کی تعداد میں ہیں اور دنیاوی وسائل سے مالا مال بھی ہیں ۔ لیکن چونکہ وہ اپنا موٴثر دفاع کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔ اس لئے اسرائیل سے مسلسل مارکھا رہے ہیں ، بالخصوص فلسطینی مسلمانوں پراس نے عرصہٴ حیات تنگ کر رکھا ہے لیکن کوئی اسلامی ملک اس کا ہاتھ پکڑنے اور اسے سبق سکھانے کے قابل نہیں ۔
تیسری مثال اسامہ اور ملا عمر کی ہے، مسلم حکمران امریکہ کے دباؤ پر یا اپنے ذہنی تحفظات کی وجہ سے انہیں جو چاہیں کہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کو دہشت گرد کہنا ایک بہت بڑا جھوٹ اور دہشت گرد سمجھنا بہت بڑا ظلم ہے۔ یہ دونوں اسلام کے مجاہد اور ملت ِاسلامیہ کے عظیم ہیرو ہیں ۔ اسامہ، اسلامی جہاد کی علامت ہے، اس نے عالم اسلام میں جہاد کی ایک لہر پیدا کی ہے جس سے عالم کفر لرزاں ہے، اس نے مسلم نوجوانوں کو ایک ولولہ تازہ دیا ہے، ان کے اندر چٹانوں کا سا عزم اور حوصلہ پیدا کیاہے، اسلام کی خاطر مرمٹنے کا جذبہ اور شعور بیدار کیا ہے جس کی وجہ سے ممولے کے اندر شہباز سے لڑنے کی اور کنجشک فرومایہ کے اندر ہم پایہٴ سلیمان جیسے لوگوں سے ٹکرانے کی قوت و توانائی پیدا ہوئی ہے۔ ملا عمر، حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے بعد تاریخ اسلام کا وہ تیسرا عمر ہے جس نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں وسائل کی قلت اور مسائل کی بھرمار کے باوجود اسلامی حکومت کا اور اس کے عدل و انصاف اور مساوات کا وہ نمونہ عملی طور پر پیش کرکے دکھا دیا جس نے خلافت ِراشدہ کے دور کی یاد تازہ کردی جس کے قیام کی ہر مسلمان اپنے دل میں آرزو رکھتا ہے۔ ان دونوں داناے راز شخصیتوں کاامریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں شہید یا گرفتار ہوجانا، عنداللہ تو یقینا ان کے لئے اعزاز و اکرام کا باعث ہوگا، لیکن ہم مسلمانوں کے لئے وہ دن ایک نہایت المناک دن اور ڈوب مرنے کا مقام ہوگا۔ عالم اسلام کی یہ بے بسی کہ وہ ملت ِاسلامیہ کے ان بے گناہ عظیم سپوتوں کو اس وقت پناہ مہیا کرنے سے قاصر ہے، قابل عبرت تو ضرور ہے لیکن ناقابل فہم ہرگز نہیں اور ہماری غلامی کی انتہا ہے کہ حکومت نے اوقاف کی مسجدوں میں ائمہ کرام کو امریکہ، اسرائیل اور بھارت کے خلاف قنوتِ نازلہ پڑھنے یعنی ان کے لئے بددعا کرنے سے حکماً روک دیا ہے فانا للَّه وانا اليه راجعون۔ اقبال نے سچ ہی کہا تھا ع غلامی میں بد ل جاتا ہے قوموں کا ضمیر… بلکہ شاید ضمیر نام کی کوئی چیز باقی ہی نہیں رہتی اور صرف ’یس سر‘ کہنا ہی یاد رہ جاتا ہے۔
وجہ اس بے بسی کی یہی ہے کہ کوئی بھی اسلامی ملک اپنا دفاع کرنے کے قابل نہیں ہے حتیٰ کہ سارا عالم اسلام مل کر ان کا مقدمہ بھی اقوامِ متحدہ میں پیش کرنے کی ہمت نہیں رکھتا، چہ جائیکہ وہ انہیں پناہ دے سکے، جبکہ ان مغربی ممالک کا اپنا کردار یہ ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے دہشت گردوں اور بڑے بڑے اخلاقی مجرموں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے۔