کتاب: محدث لاہور 258 - صفحہ 24
وسائل انہیں وافر مقدار میں عطا کئے ہیں ، لیکن منصوبہ بندی کے فقدان اور خداداد وسائل کی قدر وقیمت کے عدمِ احساس کی وجہ سے ہم پستی کا شکار اور غیروں کے محتاج ہیں ۔ ہمارے اہل علم و ہنر دیارِ غیر میں کام کررہے ہیں اور ان کی ترقی میں ان کے ساتھ خوب تعاون کررہے ہیں ، ہم انہیں معقول تنخواہیں اور مراعات دے کر ان کو ملکی ترقی میں حصہ دار بنانے کے لئے تیار نہیں ۔ حتیٰ کہ اگر کوئی خود ملی اور قومی جذبے کے پیش نظر اپنے ملک میں رہ کر اپنے ملک کو سائنسی و ایٹمی ٹیکنالوجی یادیگر اہم شعبوں کو رفعت بہ کنا رکرنا چاہتا ہو، تو ہمیں اس کی خدمات قبول نہیں ، یا اس کی قدرومنزلت کا اہتمام کرکے اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے تیار نہیں ، بلکہ اس کی حوصلہ شکنی کرنا اور اس کی تذلیل و توہین کرنا ہمارا شعار ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بالآخر وہ پھر دیارِ غیر ہی کو اپنا مسکن اور غیروں ہی کی خدمت کو اپنا مقصد ِزندگی بنا لیتا ہے یا خاموشی اور گمنامی کی زندگی گزارنے پرمجبور ہوجاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال ہمارے دو ایٹمی سائنس دانوں کے ساتھ موجودہ حکومت کا وہ رویہ ہے جو اس نے اپنے آقائے ولی نعمت امریکہ کے کہنے پر ان کے ساتھ کیا ہے …
عشرم تم کو مگر نہیں آتی!
اسی طرح خداداد وسائل کا معاملہ ہے، ہمیں ان کی قدر و قیمت کا اور انہیں ترقی دے کر ان سے استفادہ کرنے کا صحیح شعور و احساس ہی نہیں ہے۔ ورنہ اگر عالم اسلام مل کر اپنے وسائل و مسائل کے بارے میں اجتماعی سوچ اور فکر کو بروئے کار لائے اور ایک دوسرے سے اخذ و استفادہ کرکے انہیں ترقی دے اور انہیں صحیح طریقے سے استعمال کرے، تو اس سے ان کے مسائل بھی بہت حد تک حل ہوسکتے ہیں اور بہت جلد ترقی سے بھی ہمکنار ہوسکتے ہیں ۔ اس وقت ہماری جو صورتِ حال ہے، اس کا نقشہ علامہ اقبال نے اس طرح کھینچا ہے ٭
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن، تم ہو نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن، تم ہو
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن، تم ہو بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو
(۵) ہماری کمزوری و زبوں حالی کا پانچواں سبب ہمارا اپنے دفاع سے غفلت برتنا ہے۔ عالم اسلام کی دفاعی حالت یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ مال دار ملک کویت اور سعودی عرب اور عرب امارات اپنے دفاع کے لئے مغربی ممالک کے محتاج ہیں ۔ آج سے چند سال قبل صدام حسین نے کویت پر جارحانہ قبضہ کرلیا اور سعودی عرب پر بھی جارحیت کے ارتکاب کا اظہار کیا، تو ان دونوں ممالک نے امریکہ و برطانیہ وغیرہ سے امداد طلب کی اور انہوں نے ہی آکر صدام کی جارحیت سے ان دونوں کو بچایا، جس کی بہت بھاری قیمت ان کو چکانی پڑی، بلکہ ابھی تک چکا رہے ہیں ، جس نے ان کی معیشت کو نیم جان کردیا ہے۔ اسی طرح ۵۴ سال سے اسرائیل نے عربوں کا ناک میں دم کررکھا ہے، حالانکہ عربوں کے مقابلے