کتاب: محدث لاہور 258 - صفحہ 22
اسی دور میں اکبر الٰہ آبادی نے بھی کہا تھا بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا پوچھا جو ان سے پردہ تمہارا وہ کیا ہوا کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا اب اس ڈرامے کے سارے سین سامنے آگئے ہیں ، پردہ اُٹھ گیا ہے اور بقول اقبال ہی بے حجابی کا وہ زمانہ آگیا ہے جس میں دیدارِ یار عام ہے۔ (۱) قارئین کرام ! مسئلہ انگریزی زبان کے پڑھنے یا نہ پڑھنے کا نہیں ہے، اصل مسئلہ تہذیبی شناخت اور نظریاتی تشخص کا ہے۔ انگریزی زبان اس وقت بین الاقوامی نیز سائنسی علوم کی زبان ہے۔اس لئے اس کی اہمیت و ضرورت اور افادیت و ناگزیریت سے مجال انکار نہیں ۔ بنابریں بحیثیت ِزبان کے اور بطورِ علم و فن کے اس کے سیکھنے کو کوئی ناجائز نہیں کہتا۔ لیکن کیا اسے پڑھنے اور سیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم انگریزی زبان کو اپنا اوڑھنا بچھونا ہی بنالیں ، ہماری کوئی گفتگو بلاضرورت انگریزی الفاظ کی بھرمار کے بغیر نہ ہو، ہماری دکانوں کے سائن بورڈ انگریزی ہی میں ہوں ، ہمارے گھروں کے باہر ناموں کی تختیاں انگریزی ہی میں ہوں ، ہماری تقریبات کے دعوت نامے انگریزی میں ہوں ، حتیٰ کہ ہمیں اب اپنی زبان کے امی جان ، ابوجان، چچا جان، ماموں جان اور خالہ جان وغیرہ الفاظ بھی پسند نہ ہوں اور ان کی جگہ ڈیڈی، پاپا، ماما، ممی، انکل اور آنٹی وغیرہ محبوب ہوں ۔ عام لوگ شاید ان باتوں پر چیں بہ جبیں ہوں گے یا اسے بے وقت کی راگنی قرار دیں گے یا غیر اہم سمجھتے ہوں گے۔ لیکن میں عرض کروں گاکہ ان باتوں پر چیں بہ جبیں ہونے کی ضرورت نہیں ہے، یہ بے وقت کی راگنی بھی نہیں ہے۔ اور اسے غیراہم بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ تہذیبی شناخت کا مسئلہ ہے، نظریاتی تشخص کا مسئلہ ہے، قومی غیرت اور حمیت کا مسئلہ ہے۔ اگر آپ دنیا میں اپنا وجود منوانا چاہتے ہیں ، اقوامِ دنیا میں عزت و وقار کا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں ، اپنی عظمت ِرفتہ کے حصول کی کوئی تمنا اور آرزو رکھتے ہیں تو آپ بلا شبہ انگریزی زبان میں خوب مہارت حاصل کریں ، لیکن آپ کو اپنی تہذیبی شناخت کو برقرار رکھنا ہوگا، اپنے اسلامی تشخص کی حفاظت کرنی ہوگی اور ملی غیرت و حمیت کا ثبوت دینا ہوگا۔ اس کے لئے اپنی قومی زبان، اپنا قومی لباس اور اپنا مسلم تمدن اپنانا ہوگا۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو یاد رکھئے تہذیبوں کے موجودہ تصادم اور نظریات کے ٹکراؤ میں آپ کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی اور آپ حرفِ غلط کی طرح مٹا دیئے جائیں گے۔ بقولِ اکبر الٰہ آبادی۔ تم شوق سے کالج میں پڑھو، پارک میں پھولو جائز ہے غباروں میں اُڑو چرخ پہ جھولو لیکن یہ سخن بندہٴ عاجز کا رہے یاد اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو