کتاب: محدث لاہور 258 - صفحہ 21
ایک اور شعر میں اس حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں : تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر مری دانش ہے افرنگی، میرا ایماں ہے زناری مسلمانوں کا عالمی کردار کیا ہونا چاہئے؟ بہرحال اس وقت مسلمانوں کا عالمی کردار تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب اس موضوع کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ ان کا عالمی کردار کیا ہونا چاہئے؟ اس کا جواب بھی واضح ہے کہ اسلام غالب ہونے کے لئے آیا ہے مغلوب ہونے کے لئے نہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: الاسلام یعلوا ولا یعلی علیہ اس لئے یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ ہم اس کے برعکس غالب ہونے کی بجائے مغلوب کیوں ہیں ؟ فاتح کی بجائے مفتوح کیوں ہیں ؟ سربلند و سرخرو ہونے کی بجائے ذلیل و رسوا کیوں ہیں ؟ دنیا کے قائد ہونے کی بجائے مقتدی کیوں ہیں ؟ اس کے اسباب و وجوہ مخفی نہیں ، ڈھکے چھپے نہیں ، کوئی سربستہ راز نہیں ، بلکہ ہر شخص پرواضح اور آشکارا ہیں ۔ اس کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا سبب ایمان و یقین کی کمی، اپنے نظریے اور عقیدے سے انحراف، اپنے اسلامی تشخص کے تحفظ و بقا کے جذبے سے مجرمانہ حد تک غفلت واِعراض اور غیروں کی تہذیب کو اپنانے کا شوقِ فراواں اور ان کی نقالی پر فخر کرنا ہے۔ اسے علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے ایک شعر میں یوں سمو دیا ہے ۔ وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود ٹی وی پر اسی مغرب کی حیا باختہ تہذیب کی یلغار ہے، ہمارے قومی اخبارات اسی تہذیب کو پھیلانے میں نہایت موٴثر کردار ادا کر رہے ہیں اور یوں بڑی تیزی سے ہم اسلامی تہذیب اور اس کے حیاء و عفت کے تصور اور ایمان و یقین سے محروم ہوتے جارہے ہیں ۔ اقبال نے اس بات کو ظریفانہ انداز سے اس طرح بیان کیا تھا ۔ لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ روش مغربی ہے مد نظر وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین؟ پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ اقبال نے یہ اشعار اس وقت کہے تھے جب بے پردگی اور غیروں کی نقالی کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا،