کتاب: محدث لاہور 258 - صفحہ 20
لفظوں میں اسے صرف جلد بازی سے تعبیر کیا۔ لیکن کسی مسلمان ملک کو اس جرأتِ رندانہ کی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ امریکہ سے یہ مطالبہ کرتا کہ پہلے ہمیں اسامہ کی دہشت گردی کا واضح ثبوت دکھلاؤ، اس کے بغیر تمہاری کارروائی بجائے خود دہشت گردی ہوگی۔ حتیٰ کہ اس نازک موقعے پر اسلامی سربراہی کانفرنس کا اجلاس تک بلانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، صر ف وزرائے خارجہ کی حد تک۔ وہ بھی جب چڑیاں سارا کھیت چگ گئیں ، ایک اجلاس ہوا اور اس میں بھی نشستند و گفتندد و برخاستند سے زیادہ کچھ نہیں ہوا، کیونکہ اس میں ایک قراردادِ مذمت تک پاس نہیں ہوئی۔
گویا سارے مسلمان ممالک اس وقت امریکہ کے غلام ہیں اور ان سب کا آقاے ولی نعمت امریکہ ہے، وہ جو چاہے کرے، اسے کوئی روکنے والا نہیں ۔ اقوامِ متحدہ سے کچھ لوگ امیدیں وابستہ کرتے ہیں لیکن اس کا کردار بھی ایک امریکی لونڈی سے زیادہ نہیں ۔ امریکہ اسے بھی صرف اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے اور یوں اس کا کردار بھی اپنی پیشرو’ لیگ آف نیشنز‘ (انجمن اقوام) سے مختلف نہیں رہا، جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا ۔
من نہ دانم بیش ازیں کہ کفن دزدے چند
بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند
یہ سارے مسلمان ممالک، اقوامِ متحدہ سمیت، اس شعر کا مصداق ہیں ۔
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہم کو عبث بدنام کیا
یہ ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے، ہمارا وجود ایک مجسم عبرت ہے، ذلت و رسوائی کا عجیب و غریب نمونہ ہے۔ بقول حالی مرحوم ۔
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ اُبھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اُترنا دیکھے
یا بقول اقبال مرحوم ۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات