کتاب: محدث لاہور 258 - صفحہ 19
۳) ان کے مقابلے میں کافر شیطان کاگروہ ہیں ۔ ۴) اہل ایمان کی محبت اور دوستی صرف اہل ایمان کے ساتھ ہوتی ہے۔ (جیسے کافر ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں ) اور کافروں کے ساتھ ان کی دوستی نہیں ہوتی، چاہے وہ ان کے باپ، ان کے بیٹے، ان کے بھائی یا ان کے خاندان اور قبیلے کے فرد ہوں ۔ ۵) فلاح و غلبہ ایسے ہی موٴمنوں کا حق ہے۔ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَالَّذِيْنَ کَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاءُ بَعْضٍ إلاَّ تَفْعَلُوْهُ تَکُنْ فِتْنَةٌ فِیْ الاَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِيْرٌ﴾ ”کافر ایک دوسرے کے دوست ہیں ، اگر تم ایسا کرو گے (یعنی تم مسلمان بھی ایک دوسرے کے دوست نہیں بنو گے) تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پیدا ہوگا۔“ (الانفال:۸ / ۷۳) اور وہ فتنہ اور فساد یہی ہے کہ اس صورت میں کافروں کے حوصلے بڑھ جائیں گے، مسلمان مغلوب ہوجائیں گے اور اللہ کا کلمہ بلندہونے کی بجائے پست ہوجائے گا۔ اس اعتبار سے اہل ایمان کی یہ صفت کہ وہ ایک دوسرے کے دوست اور ایک دوسرے کے معاون اور انصار ہیں ، مسلمانوں کی ایک پالیسی اور مقصد ِزندگی ہے اور ہونا چاہئے، اس لئے کہ اسی پالیسی میں اللہ کے دین کی بلندی کا راز مضمر ہے۔ مسلم دنیا پر مسلط حکمرانوں کا کردار عوام کی حدتک تواہل ایمان نے اس پالیسی کا بلاشبہ اظہار کیا، لیکن مسلم حکمرانوں نے اس کے برعکس پالیسی اختیار کرکے ایک جرمِ عظیم کاارتکاب کیاہے۔ ان میں سے کچھ نے تو امریکہ کو سب کچھ پیش کردیا۔ ان کو معلومات فراہم کیں (جن کی اس دور میں بہت زیادہ اہمیت ہے) اپنی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دی۔ فوجی نقل و حرکت اور دیگرجنگی ضروریات و مقاصد کے لئے اپنے اڈّے انہیں دے دیے اور بھی انہوں نے جس چیز کا مطالبہ کیا، انہوں نے پیش کرنے میں تامل نہیں کیا اور یوں چند ڈالروں کے وعدۂ فردا پراپنے لئے ایمان کش اور غلامانہ کردار پسند کیا۔ آہ ع قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند! انہوں نے ملت فروشوں میں اپنا نام لکھوا کر ذلت و رسوائی کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے جعفر از بنگال و صادق از دکن ننگ ِآدم، ننگ دیں ، ننگ وطن اور کچھ مسلمان ملکوں نے اپنے اڈے تو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی، لیکن اپنے بعض ذہنی تحفظات کی وجہ سے امریکی کارروائی کو خاموشی سے دیکھنے پر قناعت کی اور بعض مسلمان ملکوں نے دبے