کتاب: محدث لاہور 258 - صفحہ 17
اب افغانستان میں پھر قتل وغارت گری کا بازار گرم اور لوٹ کھسوٹ اور خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہے اور امن و استحکام ایک خواب و خیال بن کر رہ گیا ہے۔ اگر ان عالمی دہشت گردوں کا مقصد افغانستان میں امن و استحکام قائم کرکے اس کی تعمیر نو ہوتا، تو یہ کام طالبان سے مفاہمت کرکے ہی ممکن تھا۔ اب یہ مقصد سالہا سال تک حاصل ہوتا نظر نہیں آتا۔ جنہیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تم نے وہی چراغ چلیں گے تو روشنی ہوگی! طالبان کے مخالفین ذرا گریبان میں منہ ڈال کر سوچیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جو کارروائی ہوئی ہے، اس سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوا ہے یا دہشت گردی کا دیو اور زیادہ قوی ہوگیا ہے؟ امن و استحکام قائم ہوا ہے یا اس کے برعکس بدامنی اور عدم استحکام میں اضافہ ہوگیا ہے؟ اگر یہ تسلیم ہے اور ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی ختم نہیں بلکہ بڑھی ہے اور آئندہ بھی کم ہونے کا نہیں بلک بڑھنے کا امکان ہے تو پھر اس کارروائی کا کیا جواز ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کی ہے؟ المیہ افغانستان پر اسلامیانِ عالم کا اضطراب دنیاے اسلام کے عام مسلمان بلا شبہ المیہ افغانستان پر خون کے آنسو رو رہے ہیں ۔ آسماں را حق بود گر خوں بہ بار برزمیں بر زوال تو مجاہد اے امیر المؤمنین وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے اور کرنا چاہتے ہیں ، لیکن بے بس ہیں اور احتجاج و اضطراب کی صدا بلند کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔ الحمدللہ! عوام نے اپنا یہ فرض ادا کیا، وہ تڑپتے رہے اور تڑپ رہے ہیں ، مضطرب و پریشان رہے اور مضطرب و پریشان ہیں ۔ بلاشبہ ان کا یہ اضطراب اور پریشان ہونا، ان کے ایمان کی علامت اور ان کے جذبہ اُخوتِ اسلامی کا مظہر ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ گرامی ہے: تری المؤمنين فی تراحمهم وتوادهم وتعاطفهم کمثل الجسد إذا اشتکی عضوا تداعی له سائر جسده بالسّهر والحمی (صحیح بخاری: الادب، باب رحمة الناس والبهائم، حدیث ۶۰۱۱) ”تم موٴمنوں کو ایک دوسرے پر رحم کرنے، باہم نرمی اور محبت کرنے میں ایسا دیکھو گے جیسے ایک جسم ہوتا ہے، جسم کا جب کوئی ایک حصہ تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو سارا جسم ہی تکلیف محسوس کرتا اور اس کی وجہ سے بیدار رہتا اور بعض دفعہ بخار تک میں مبتلا ہوجاتا ہے۔“ ایک دوسری حدیث میں فرمایا:المؤمنين للمؤمن کالبنيان يشد بعضه بعضا (صحیح بخاری: المظالم، باب نصر المظلوم، حدیث ۲۴۴۶)