کتاب: محدث لاہور 258 - صفحہ 16
اور بقول حفیظ جالندھری ۔ دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی! دوستوں نے اپنوں پر ناوک افگنی کے لئے دلیل یہ پیش کی کہ ہم نے انہیں بہت سمجھایا، صورتِ حال کی نزاکت کا احساس دلایا، وہ سمجھے بغیر اور حالات کی خطرناکی کے اِدراک سے قاصر رہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ بات ایسی نہیں ہے جوباور کرائی جارہی ہے۔ طالبان کا رویہ ہرگز عدمِ مفاہمت کانہیں تھا، وہ تو ۱۹۹۸ء سے یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ کے پاس اگر اسامہ کے دہشت گردی کی کسی کارروائی میں ملوث ہونے کا ثبوت ہے تو وہ کسی غیر جانبدار عدالت میں پیش کرے، ہم اس کے لئے اسامہ کو کسی تیسرے ملک کی تحویل میں دینے کے لئے تیار ہیں ۔ لیکن چونکہ اس کے پاس ایسا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا اور نہ ہے، اس لئے مذاکرات کی یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ اس کے پاس صرف اتہامات و مفروضات ہیں جنہیں وہ دھونس اور دھاندلی سے ثبوت باور کرانا چاہتا تھا۔ اس کا اصل مقصد تو افغانستان سے ایسی حکومت کا خاتمہ تھا جو دنیا میں اسلامی عدل و انصاف کی مظہر اور اسلامی اخوت و مساوات کا نمونہ تھی۔ بلاشبہ امریکہ کے کچھ اور سیاسی و معاشی مقاصد بھی ہیں لیکن بڑا مقصد احیائے اسلام اور جہاد کے بڑھتے ہوئے اس جذبے کا خاتمہ تھا جو طالبان کے طرزِ حکومت اور ان کی منصفانہ پالیسیوں سے پیدا ہورہا تھا۔ جس کا علاج بقولِ اقبال انہوں نے یہی سوچا ۔ وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو! فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو! افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو! اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو آہو کو مرغزارِ ختن سے نکال دو! اقبال٭ کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو! اقبال مرحوم کا یہ کلام ضربِ کلیم میں ہے، اس نظم کا عنوان ہی یہ ہے ”ابلیس کا فرمان، اپنے سیاسی فرزندوں کے نام“ چنانچہ ابلیس کے سارے سیاسی فرزندوں نے مل کر، جس کا نام عالمی اتحاد ہے، افغانستان کے چمن سے اس کے اس غزل سرا کو نکال دیا، جس نے افغانستان کو امن و استحکام عطا کیا تھا جو کسی ملک کی تعمیر نو کے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے۔