کتاب: محدث لاہور 258 - صفحہ 14
نہیں تھی۔ یہ یقینا ایک ایسے گروہ کی کارروائی ہے جو امریکی ہی ہے اور اسے امریکہ کے خصوصی اداروں تک رسائی بھی حاصل ہے۔ لیکن امریکہ طالبان کو صرف اس لئے ختم کرنا چاہتا تھا کہ مفلس و قلاش ہونے کے باوجود انہوں نے امریکہ کی دریوزہ گری کرنی پسند نہیں کی۔ دوسرے، صدیوں سے امن سے محروم علاقے میں اسلام کی حکمرانی کے ذریعے سے انہوں نے عملاً امن قائم کرکے دکھا دیا۔
قابل غوربات یہ ہے کہ کیا دہشت گردوں کے ہاتھوں بھی کبھی امن قائم ہوا ہے؟ کیا دہشت گردوں کے ذریعے سے بھی لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ ہوا ہے؟ کیا دہشت گردوں کے اقدامات سے بھی کبھی تعمیر وطن کا کام ہوا ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو کیا اس سے یہ واضح نہیں ہوجاتا کہ طالبان دہشت گرد تھے نہ دہشت گرد کے پشتیبان۔ وہ تو اسلام کے محافظ تھے، وطن کے معمار تھے، ناقہ ٴ ملت کے حدی خواں تھے، اسلامی اقدار و روایات کے پاسبان تھے، اسلامی تہذیب کے علم بردار اور قرونِ اُولیٰ کے سے اخلاق و کردار کے حامل تھے۔ اسی لئے وہ عالم اسلام کی اُمیدوں کا مرکز تھے، الحاد و زندقہ کی تاریکیوں میں قندیل ربانی تھے، ظلمت ِشب میں صبح درخشاں کی نوید جاں فزا تھے، وہ مقاصد فطرت کی نگہبانی کرنے والے بندگانِ صحرائی اور مردانِ کہستانی تھے، وہ عجم کا حسن طبیعت اور عرب کا سوزِ دروں تھے اور اس دور میں جبکہ سوائے سعودی عرب کے کوئی بھی اسلامی ملک اسلامی عقیدہ و ایمان کے تقاضوں کو بروئے کار لانے کے لئے تیار نہیں ، وہ سرمایہٴ ملت کے نگہبان اور علامہ اقبال کے ان اشعار کے مصداق تھے ٭
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دونیم، ان کی ٹھوکر سے صحراء و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود موٴمن
نہ مالِ غنیمت، نہ کشور کشائی
افسوس!
وہ لوگ ہم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیئے
ڈھونڈا تھا آسمان نے جنہیں خاک چھان کر!
مرورِ ایام کی دبیزتہوں اور لیل و نہار کی ہزاروں گردشوں کے بعد چشم فلک نے ایسے حکمران دیکھے