کتاب: محدث لاہور 258 - صفحہ 12
عالم اسلام حافظ صلاح الدین یوسف
تہذیبی تصادم ، المیہء افغانستان اور عالم اسلام کا کردار
ہم ذیل میں دو حوالوں سے اپنے موضوع پر گفتگو کریں گے
(۱) مسلمانوں کا عالمی کردار کیا ہے؟ (۲) اور کیاہونا چاہئے؟
پہلے حصے یا سوال کا جواب بالکل واضح ہے کہ اس وقت مسلمانانِ عالم کا کوئی عالمی کردار نہیں ہے۔ یعنی کہنے کو تو مسلمانوں کی ۶۰ مملکتیں ہیں اور ان میں اور دیگر ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد بھی ایک اَرب سے متجاوز ہے۔ علاوہ ازیں مسلمان افرادی قوت اور متعدد قدرتی وسائل سے بھی مالا مال ہیں ، ان کا جغرافیائی محل وقوع بھی نہایت اہمیت کا حامل اور تقریباً باہم پیوست ہے جو ایک نہایت عظیم اکائی اور زبردست قوت بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود مسلمان ممالک کی حیثیت صفروں کے مجموعہ سے زیادہ نہیں ۔ وہ ایک تودہٴ خاک ہیں جو کسی طوفان کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا، وہ ایک چراغِ رہ گزر ہیں جو بادِتند تو کیا بادِنسیم کا جھونکا بھی برداشت نہیں کرسکتا، وہ گردابِ بلا میں پھنسی ایک ڈولتی کشتی ہیں جس سے طوفانِ بلاخیز کی خوفناک موجیں اٹھکیلیاں کررہی ہیں ۔ وہ ایک ایسا گنگا ہیں جو سیلابی ریلے کے ساتھ بہنے پر مجبور ہے، وہ انسانوں کاایک ایسا ریوڑ ہیں جس کی کوئی سمت ہے، نہ اس کا کوئی رکھوالا۔ وہ گم گشتہ راہی ہیں جسے اپنی منزل کا پتہ ہے، نہ اس کا کوئی شعور ہی انہیں حاصل ہے۔ وہ بیوہ کا آنچل ہیں جسے کوئی بھی نوچ کر پھینک سکتا ہے، وہ یتیم کا آنسو ہیں جس کی کوئی اہمیت نہیں ، وہ ایک گدائے بے نوا ہیں جس کی کوئی عزت و آبرو نہیں اور وہ ایک شہر خموشاں کی مانند ہیں جس میں زندگی کی کوئی حرارت و توانائی نہیں ۔ یا بالفاظِ دگراِن کے پاس عصا ہے لیکن کوئی کلیمی کردار ادا کرنے والا نہیں ۔ دعاے ایمان ہے لیکن ضربِ یداللّٰه ہی نہیں ، حسین رضی اللہ عنہ سے نسبت پر فخر ہے لیکن رسم شبیری ادا کرنے کی ہمت نہیں ، نبی آخر الزمان حضرت محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جذباتی تعلق و و ابستگی ضرور ہے لیکن اسوہ ٴ رسول اپنانے کے لئے تیار نہیں اور قرآن کریم جیسا نسخہ کیمیا اور نسخہ شفا ان کے پاس موجود ہے لیکن شدتِ مرض سے جاں بلب ہونے کے باوجود اسے استعمال کرنے کے لئے تیار نہیں !!
قارئین کرام! یہ مفروضات نہیں ، الفاظ کے طوطا مینا نہیں ، پروپیگنڈہ کی شعبدہ گری نہیں ، حقائق ہیں گو تلخ ہیں ، واقعات ہیں جو ہر شخص کے تجربہ و مشاہدہ کا حصہ ہیں ۔ یہ ہمارا وہ کردار ہے جو ’عیاں راچہ بیاں ‘