کتاب: محدث لاہور 258 - صفحہ 11
۶۔بھارتی مسلمانوں کو دنیا کے مختلف ممالک میں اقلیتوں کے حقوق کی جدوجہد کے ساتھ اپنے آپ کو شریک کرنا چاہئے۔ انہیں مطالعہ کرنا چاہئے کہ زندہ قوموں میں اقلیتیں اپنے حقوق کی پرامن جدوجہد کے لئے کیا کیا حکمت ِعملی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ بھارت کے بعد دنیا میں ، کینیڈا میں فرانسیسی بولنے والی اقلیت شاید سب سے بڑی ہے۔ امریکہ، برطانیہ او ردیگرممالک کی ا قلیتوں کے ساتھ انہیں قریبی رابطہ استوار کرنا چاہئے۔ ۷۔اقوامِ متحدہ اور مسلم ممالک کے ساتھ مسلمانوں کو خاص طور پر رابطہ استوار کرنا چاہئے۔ یہ وہ ادارے ہیں جہاں سے انہیں سب سے زیادہ اخلاقی اور عملی امداد کے ملنے کے امکانات ہیں ۔ ۸۔مسلمانوں کو بھارت میں اپنی نوجوان نسل کے اندر تعمیری سرگرمیوں کا ذوق پیدا کرنا چاہئے۔ تعلیمی میدان میں انہیں بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے۔ نوجوان نسل کو ٹکراؤ، جلاؤ، گھیراؤ جیسے منفی جذبات سے نکال کر تعمیری راستوں پر چلنے کے لئے تیار کرنا چاہئے۔ ہندوؤں کے خلاف یہ ٹکراؤ ان کے قومی مفاد میں نہیں ہوگا، مگر اس کے برعکس انہیں ایسے اسلامی سکالروں کی پالیسی کو بھی مسترد کردینا چاہئے جو صرف مسلمانوں کو امن کی تبلیغ کرکے مکمل ناکارہ اور بے غیرت بنا دینا چاہتے ہیں ۔ ۹۔اسلام ہی مسلمانوں کامحفوظ ترین قلعہ ہے۔ بھارتی مسلمانوں کواس قلعے میں پناہ لینے کی پاکستانی مسلمانوں سے زیادہ ضرورت ہے۔ بھارتی ہندو کلچر کی یلغار سے پاکستان کی نوجوان نسل محفوظ نہیں ہے، تو بھارتی مسلمان کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں ؟ اسلامی ثقافت سے محبت کو فروغ دینے اور اسلامی تعلیمات کو نوجوان نسل تک پہنچانا بے حد ضروری ہے۔ اس کام کے لئے دینی مدارس اور تعلیمی اداروں کو استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ ۱۰۔جہاں کہیں مسلم کش فسادات شروع ہوجائیں ، قریبی علاقوں کے مسلمانوں کو خاموش تماشائی کی بجائے اپنے مسلمانوں بھائیوں کے تحفظ اور دفاع کے لئے سرتوڑ کوشش کرنی چاہئے۔ غیر محفوظ علاقوں میں اجتماعی پناہ گاہیں بنائی جائیں ، بوقت ِضرورت فوری طور پر خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو منتقل کیا جاسکے۔ ۱۱۔مسلمانوں کی مقامی قیادت کو ہندو قیادت سے قریبی رابطہ رکھنا چاہئے، جب بھی کھچاؤ کی صورتحال پیدا ہو فوری مذاکرات کے ذریعے اس کھچاؤ میں کمی لانی چاہئے۔ (محمد عطاء اللہ صدیقی)