کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 70
تعلیم کو ملک کے نظریاتی تحفظ کا ضامن ہونا چاہئے۔ لہٰذا جو نئے نصابات مدون کئے جائیں ، بیجنگ اور قاہرہ کانفرنسز کے ایجنڈے کے بجائے اسلام کی روشنی میں مرتب کئے جائیں ۔ ۴۔ بی ایس سی/بی اے کا کورس چار سالہ کرنے سے تعلیم کا دورانیہ بہت لمبا ہوجائے گا۔ اس طویل دورانئے کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ نیز سمسٹر سسٹم کے ذریعے اور معروضی سوالات کے ذریعے تعلیم کو جاندار بنانے کی ضرورت ہے۔ ۵۔ آج کل اکیڈمیوں کی وَبا زوروں پرہے۔ تمام طلبہ ٹیوشن پر زور صرف کرتے ہیں اور تعلیمی اداروں کا کردار کم سے کم تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ ایسا نظام بنانے کی ضرورت ہے کہ اکیڈمیوں اور ان گرانقدر ٹیوشنز کو حکماً بند کردیا جائے اور تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی پروموشن ان کی بہتر کارکردگی سے وابستہ کردی جائے۔ ۶۔ راولپنڈی میں جو خواتین یونیورسٹی قائم کی گئی ہے، اس کا ماحول مغربی اور نصاب بھی مغربی ہے۔ عورتوں کے حوالے سے نصاب کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ پھر صرف ایک یونیورسٹی بہت کم ہے۔ علاوہ ازیں چاروں صوبوں میں بھی ایک ایک خواتین یونیورسٹی ، خواتین کی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے ضروری ہے اور ان میں نسوانی تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب مقرر کئے جائیں ۔ ۷۔ میٹرک، ایف اے/ ایف ایس سی اور بی اے/بی ایس سی کی سطح پر انگریزی کو لازمی قرار دینے سے ہمارے ملک کا بہت قابل جوہر ضائع ہورہا ہے۔ اس کو ایک اختیاری مضمون قرار دینے سے ہمارے وطن عزیز کے بیشتر نوجوانوں کا بھلا ہوگا اور تعلیمی معیار ان شاء اللہ بڑھے گا۔ شرح خواندگی میں بھی اضافہ ہوگا خود سائنسی علوم و فنون کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔ اعلیٰ درجے کی سائنسی علوم پڑھنے کے لئے طلبہ کے لئے الگ انگریزی کے کورسز قائم کئے جاسکتے ہیں ۔ ۸۔ میٹرک کی سطح پر ترجمہ قرآن پڑھانے کا فیصلہ خوش آئند تھا مگریہ سلسلہ کلاس ششم سے شروع کرکے میٹرک تک کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ صرف دوسال میں مکمل قرآن پاک کا ترجمہ پڑھانا عملاً ناممکن ہے۔بڑے افسوس کی بات ہے کہ اس نصاب کو توسیع دینے کی بجائے اس میں ہی کمی کردی گئی، جس پر تمام دینی جماعتوں نے خوب احتجاج بھی کیا ۔ اس پر مزید یہ کہ اب سورة الانفال اور سورة التوبہ کو نصاب سے نکالنے کے احکامات صادر کئے جارہے ہیں ۔ ۹۔ ہر طالب علم کو اپنے عظیم الشان ماضی سے لازماً روشناس کروانے کے لئے مطالعہ پاکستان کی تدریس کے لئے بھی خصوصی بندوبست کیاجائے۔ ہر طالب ِعلم کو اتنا ضرور معلوم ہو کہ الجبرے میں کوئی عمرخیام اور خوارزمی بھی تھا۔ کیمیا میں کوئی ابن حیان بھی تھا، فلسفے میں کوئی ابن رشد اور ابن سینا بھی تھا۔ اس طرح نوجوانوں کو ہر شعبہٴ علم میں اپنا حصہ لازماً نظر آنا چاہئے۔ ۱۰۔ ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا ہتھیار ’انفارمیشن میڈیا‘ ہے جس کا سفر پرنٹ میڈیا سے شروع ہوا تھا اور