کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 7
کی۔انہوں نے اعلان کیا کہ کسی بھی جگہ دہشت گردی میں کوئی پاکستانی ملوث پایا گیا تو سخت کارروائی کریں گے۔ انہوں نے کہا کشمیر ہماری رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے۔ تقریر کا ایک ایک نکتہ قابل بیان ہے مگر ہم اسے قلم انداز کرتے ہیں ۔کیونکہ یہ تقریر اخبارات میں شائع ہوچکی ہے اور اس پر مفصل تبصرے بھی شائع ہوئے ہیں ۔ جس کسی عالم دین نے اس تقریر کو دیکھا یا سنا، کیا وہ یقین کرسکتا ہے کہ یہ وہی جنرل صاحب تھے جو علما کی مجلس میں بے حد مروّت اور گھلاوٹ سے پیش آتے ہیں ۔ یہ تقریر ہر اعتبار سے ایک سیکولر حکمران کی تھی جسے سن کر مذہب سے گہری محبت کرنے والے ہر مسلمان کا کلیجہ دہل دہل جاتا تھا۔ جہادی تنظیمیں تو ایک طرف، دینی مدارس کے وہ سادہ لوح طلبا جنہوں نے کبھی جہاد میں حصہ لیا، نہ حکومت کے خلاف کبھی کسی مظاہرے میں شریک ہوئے ہیں، اس تقریر کو سن کر سہمے سہمے اور دبے دبے سے پھر رہے ہیں ۔ اس تقریر سے ایک دن پہلے مدارس کے ہزاروں طلبا کو گرفتار کرکے خوف و ہراس کی فضا پیدا کی گئی، اور اس کے بعد اب تک ان دینی مدارس میں ایک دہشت زدگی کا احساس پایا جاتا ہے جنہیں جنرل صاحب فلاحی اداروں کا سب سے بڑا نیٹ ورک قرار دیتے ہیں ۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خاتمہ کی مخالفت کوئی پاکستانی نہیں کرتا، مگر اس ’کارِخیر‘ کے لئے جس انداز میں کارروائی کی گئی ہے اور جو انداز اپنایا گیا ہے، اس پر اعتراض کا حق تو ہر شہری کو میسر ہے۔ پاکستان کی پوری تاریخ میں دینی مدارس میں خوف و ہراس کی ایسی دہشت ناک فضا کا مشاہدہ کبھی نہیں کیا گیا۔ امریکہ کی خوشنودی کے حصول اور بھارت کے دباؤ کے نتیجہ میں اپنے ہی ملک کے دینی مدارس اور مذہبی جماعتوں کے ارکان کے خلاف اس قدر شدید کارروائی کو آخر نگاہِ تحسین سے کون دیکھے گا ؟؟ جنرل صاحب فرماتے ہیں کہ وہ پاکستان کو ’جدید اسلامی ریاست‘ بنانا چاہتے ہیں ۔ وہ خلوصِ دل سے ایسا ضرور کریں ، آخر انہیں کون روکتا ہے؟ اگر ’جدید‘ اور ’ترقی پسند‘ ریاست سے ان کی مراد ٹیکنالوجی اور سائنسی علوم کی ترقی ہے، تو دینی مدارس نہ اس سے پہلے ایسی ترقی کی راہ میں کبھی مزاحم تھے، نہ آئندہ ہوں گے۔ گذشتہ حکومتوں کے ادوار میں اس ملک میں سٹیل مل قائم کی گئی، دفاعی پیداوار کے ٹینک ساز کارخانے قائم کئے گئے، کہوٹہ جیسے قابل فخر نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے سنٹر قائم کئے گئے، سپارکو نے خلائی تحقیق کے مراکز قائم کئے، ٹیکسٹائل ملوں کا جال بچھایا گیا، زرعی تحقیق کے وسیع ادارے بنائے گئے، آج کل حکومت کمپیوٹر ٹیکنالوجی کو متعارف کرانے کے لئے اقدامات کررہی ہے۔ آخر جدیدیت اور ترقی پسندی کا ان میں سے کون سا اقدام ہے جس کی دینی مدارس نے مزاحمت کی یا اسے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس کے خلاف جلوس نکالے۔ ابھی چند دن پہلے وفاقی وزیر سائنس ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب نے شکایت کی کہ پاکستان کی انجینئرنگ یونیورسٹیوں نے گذشتہ ۲۰ سالوں میں صرف دو پی ایچ ڈی تیار کئے جب کہ بھارت نے ایسے