کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 69
کردیاجاتاہے۔ مبادا مسلمان کوئی قوت نہ بن جائیں ۔پاکستان کی اکلوتی جوہری قوت کے خلاف آئے روز سازشیں اور پابندیاں کھڑی کی جاتی ہیں ۔ تعلیمی پالیسی برائے سال 1997ء تا 2010ء پاکستان کی نئی سرکاری تعلیمی پالیسی جوفی الوقت نافذ ِعمل ہے، حسب ِسابق وہ رواں مغربی تعلیم ہی کا تسلسل ہے۔ یہ پالیسی آئین پاکستان کی دفعہ ۳۱ اور ۳۷ (جو تعلیم سے متعلق ہیں ) کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اس پالیسی میں ۱۔ذریعہ تعلیم اُردو زبان کونہیں بنایا گیا۔ انگریزی، اُردو یا مادری زبان کہہ کر معاملہ پھر مبہم کردیا گیا ہے۔ زبان فقط اظہارِ خیال ہی کا ذریعہ نہیں ہوتی بلکہ یہ اپنی قوم کی صدیوں پر محیط دینی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی قدروں کی امین ہوتی ہے۔ یکساں ذریعہ تعلیم پورے ملک میں اتحاد، یکجہتی اور استحکام پیداکرنے کا ضامن ہوتا ہے۔ جبکہ مختلف ذریعہ ہاے تعلیم کی موجودگی ایک طر ف خود تعلیم کے معیار کو پست کرنے کا سبب ہے۔ دوسری طرف ملک میں لسانی اور صوبائی تعصب کو پروان چڑھانے کا باعث بنتی ہے اور وطن عزیز کو انتشار اور افتراق کی راہ پر ڈالتی ہے۔ لہٰذا حکومت سے گذارش ہے کہ وہ کلاس اوّل سے لے کر میٹرک تک صرف اردو کو ذریعہ تعلیم بناکر دستوری تقاضا بھی پورا کرے اور معیارِ تعلیم کو بھی بلند کرنے کا کردار ادا کرے۔ اس سے ملک میں یکساں طرزِ فکر اور اتحاد و یکجہتی پیداہوگی۔ ۲۔پرائمری تعلیم پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ میٹرک پاس اساتذہ بچوں کو کیا سکھائیں گے۔ اعلیٰ قابلیت کے حامل تربیت یافتہ اساتذہ کو پرائمری تعلیم کے لئے تعینات کیا جائے۔ ان کے معقول مشاہروں کا بندوبست ہو۔اساتذہ کی تعداد بڑھائی جائے۔ اساتذہ اور بچوں کی نسبت۱:۲۰ ہونی چاہئے۔ تاکہ وہ بچوں کا کام ذاتی نگرانی میں پوری توجہ سے چیک کریں ، ہاتھ پکڑ پکڑ کر ان کی لکھائیں درست کروائیں ۔ درست تلفظ، ہجے، املا، گنتی، بنیادی حساب… ان سب کاموں کے لئے پرائمری کی سطح پر زیادہ اساتذہ کا تقرر لازمی ہے۔نیز خوشخطی سکھانا، قرآن پاک ناظرہ، تجوید کے ساتھ پڑھانا، عربی کا بنیادی تعارف وغیرہ پوری توجہ اور مہارت سے دینا ضروری ہے۔ ہر استاد زیادہ سے زیادہ ۲۰،۲۵ بچوں تک صحیح کام کروا سکتا ہے۔ پرائمری سطح کے اساتذہ کی تربیت پر بھی مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تعلیم کے لئے سنجیدگی سے زیادہ بجٹ مختص کیا جائے اور اس کا کم از کم نصف پرائمری تعلیم کے لئے وقف ہو۔ ۳۔طلبہ کو انفرادی و اجتماعی زندگی کتاب و سنت کے مطابق گزارنے کے قابل بنانا ہمارے دستور کا تقاضا ہے۔ لہٰذا نظریاتی جہت کی طرف توجہ دینے کی بڑی ضرورت تھی، مگر اس سے صرفِ نظر کرکے تعلیم کو صرف برائے حصولِ معاش کی پالیسی دی گئی ہے،یہ بنیادی نصب العین سے انحراف ہے۔ ہماری