کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 68
بڑے ٹکڑوں میں تقسیم کردیا گیا۔ ان کی پالیسی ہی یہ تھی: Divide & Rule (ان کو ٹکڑوں میں بانٹ کر ان پرحکومت کرو)۔ عرب ممالک کو ’عرب لیگ‘ دے کر مسلم ممالک سے الگ کرکے ۲۲ حصوں میں بانٹ دیا اوراب ہر حصہ اپنے اپنے مفادات کا اسیرہے۔ اس وقت عالم اسلام تقریباً چھوٹے بڑے ۵۶ ملکوں پرمشتمل ہے۔جبکہ پہلے پورا عالم اسلام ایک وحدت کہلاتا تھا۔ اس وقت عیسائیوں کے لئے دنیا میں مرکز موجود ہے، یہودیوں کے لئے مرکز ہے۔ مگر عالم اسلام، دنیا میں اپنی کثیر تعداد اور متعدد ملکوں کے باوجود اس کا کوئی مرکز نہیں ہے جو مسلمانوں پر پیش آنے والے مسائل پر آواز اٹھا سکے۔ OICاس وقت اتنا بے وقعت ادارہ ہے کہ افغان امریکہ جنگ میں اس نے اپنی بے وقعتی پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ ۲۔ خلافت کی جگہ ہمیں جمہوریت کے کھلونے سے بہلایا گیا۔ جس کا مقصد ہی نوابوں ، جاگیرداروں اور وڈیروں کوبرسراقتدار لانا ہے۔ اس جمہوری نظا م کا خمیر ہی کچھ ایسا ہے کہ اس کے ذریعے کوئی دینی جماعت یا شخص آگے نہیں آسکتا۔ ۳۔ مسلمانوں سے جہاد چھینا گیا، اس غرض کے لئے اپنے وفادار غلام احمد قادیانی کو کھڑا کیا گیا جو انتہا درجے کا منافق تھا۔ اس نے نبوت کا سوانگ رچایا اوراپنی نئی شریعت میں جہاد کو موقوف قرار دیا۔ اس کے ذریعے مسلمانوں میں افتراق وانتشار پیدا کیا گیا۔ مجاہدین کو وہابی، بنیاد پرست، دہشت گرد وغیرہ جیسے کئی فرقوں میں بانٹ کر باہم دست و گریبان بنا دیا گیا۔ چند سال قبل قاہرہ میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں اسلامی ملک مصر کے دارالخلافہ میں خود مسلمان حکمرانوں نے اسلامی دہشت گردی سے نپٹنے کے لئے لائحہ عمل طے کیا۔ ان کو مجاہدین کی سرگرمیاں تو دہشت گردی نظر آتی ہیں مگر کشمیر، افغانستان، بوسنیا، فلسطین، چیچنیا اور افغانستان میں سربوں ، یہودیوں ، روسیوں ، ہندوؤں اور امریکیوں کے مظالم نظر نہیں آتے، نہ یہاں کی مسلم ماؤں بہنوں کی دلدوزچیخ و پکار سنائی دیتی ہے۔ ۴۔ یواین او کے ذریعے یہودیوں اور عیسائیوں کو ہم پر تسلط جمانے کا خوب موقع ملا۔بڑے سے بڑا اسلامی ملک کس طرح امریکہ بہادر کے آگے ہاتھ باندھے کھڑا نظر آتا ہے۔ ان کا دست نگر اور غلام بن چکا ہے۔ پھر اسی یواین او یعنی اقوامِ متحدہ کی آڑ میں ہمیں بے پناہ مالی، صحافتی، تعلیمی، تہذیبی، غرض ہر محاذ پر زبردست نقصان پہنچایا گیا۔ کہیں مسلمانوں پر اغیار کے ظلم و ستم کابازار گرم ہوا۔ یواین او کے قوانین کی رو سے کوئی مسلمان ملک متاثرہ ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ ۵۔ تمام ذرائع ابلاغ پر یہود کا کنٹرول ہے۔ اسلامی ممالک کے تمام مالی وسائل پر ان کو دسترس حاصل ہوچکی ہے۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف کے ذریعے ہمارے معاملات کنٹرول کئے جارہے ہیں ۔ مسلمان جوہری توانائی کے محتاج ہیں مگر حیلے بہانوں سے ان کے جوہری پلانٹوں کو تاخت و تاراج