کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 67
ہمارے معاشرے میں زبردست انقلاب لاسکتے تھے۔ مگر اس وقت ہمارے ذرائع ابلاغ مغربی گندگی کو تیزی سے ہمارے معاشرے میں فروغ دے رہے ہیں ۔ الیکٹرانک میڈیا اورپرنٹ میڈیا دونوں ہی ایک طرف مسلمانوں میں غلط خبروں کے ذریعے افتراق و انتشار پھیلا رہے ہیں ۔دوسری طرف ان کی فحش فلمیں ، کارٹون، ماڈلنگ، ریکارڈنگ، شوبز ہماری آنکھ کا سرمہ بنے ہوئے ہیں ۔ ہماری نوجوان نسل لہو و لعب، تفاخر و تکاثر اور مال و متاع کی پجاری بن گئی۔ وہ رنگ، نسل زبان کے فتنوں میں گرفتار صوبائیت پرستی کا زہر پھیلانے میں مصروف، پاکستان کے مفادات کے خلاف سرگرمِ عمل ہے۔ اس وقت ہماری نوجوان نسل نہ اپنے کشمیری، فلسطینی، بوسنی اور افغانی بھائی بہنوں کی ٹیس کو سن سکتی ہے، نہ ان کے درد کو سمجھ سکتی ہے، نہ طیش میں خوفِ خدا دامن گیر ہوتا ہے، نہ عیش میں خدا کی یاد آتی ہے۔ آج ہماری زبانیں دین کی تعریف سے لبریز ہیں ، خوفِ خدا کے بے شمار دعوے ہیں ،عشق رسول میں محافل میلاد کے قیام ہماری بڑی متاع سمجھے جاتے ہیں ۔ ہر پروگرام کے آغاز میں سوزوجذبہ سے تلاوتِ قرآن اور عقیدت سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہٴ نعت پیش کرنے کے بعد ہم مطمئن ہیں کہ ہم مخلص مسلمان ہیں ۔ حالت یہ ہے کہ ملک کا سپریم لا شریعت ِاسلامی کے بجائے برطانوی قانون ہے۔ آخر کیوں نہ ہو، ہمارے وکیل، ڈاکٹر، انجینئر اورجج وغیرہ سب اسی نظامِ تعلیم کے پڑھے ہوئے ہیں ۔ مقدمات کے فیصلے اسی انگریزی قانون کے مطابق ہوتے ہیں ۔ ہم میں کئی سلمان رشدی، تسلیمہ ناظر اور ثریا میر پیدا ہو رہے ہیں ۔جو مسلمان ہونے کے باوجود اسلامی احکامات کا واضح مذاق اڑاتے نہیں شرماتے۔ توہین رسالت کرنے والے اعزازات پاتے ہیں اوردینی مسائل میں انگریزی آقاؤں کے مشورے پر کتر بیونت کرنے والے بیش قیمت انعامات ’فضل ربی‘ سمجھ کر وصو ل کرتے ہیں ۔ یہ مذاق کب تک جاری رہے گا؟ سیکولر نظامِ تعلیم کے علاوہ دیگر غیرملکی سازشیں مغربی تعلیم کے ذریعے مسلمانوں کے فکرونظر کے زاویے بدل کر ہمیں بے حد نقصان پہنچایا گیا۔ غیر ملکی استعمار نے مسلمانوں سے کیا لیا اور ان کو کیا دیا؟ یہ سوال بڑا دردناک ہے۔ کہیں شاطرانہ چالوں سے ، کہیں سنگینوں کے سائے میں اور غیر ملکی آقاؤں نے، دنیا میں ہر جگہ مسلمانوں کو پسپا کیا۔ مصر، افریقہ، برصغیر پاک و ہند ہر جگہ ان کی لوٹ مار کے طریقے تقریباً یکساں تھے۔ چند جزوی تبدیلیوں کے ساتھ ہر جگہ اپنی زبان اوراپنا نظامِ تعلیم رائج کرکے مسلمانوں سے ان کی اسلامی غیرت اور موٴمنانہ حمیت کوبے دینی اور بے حسی میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسی ملحدانہ دین بیزار نظامِ تعلیم سے مسلمانوں کو بامِ ثریا سے زمین پر د ے مارا گیا، عرش سے فرش پر گرا دیا گیا۔ ۱۔ مسلمانوں کا مرکز ِوحدت یعنی خلافت کا اِدارہ چھین لیا گیا اور اس کی جگہ مسلمانوں کوبے شمار چھوٹے