کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 66
٭ آج جہاد کو دہشت گردی اور بنیاد پرستی قرار دے کر اس کو ختم اور معطل کرنے کے پروگرام جاری وساری ہیں اور اس کی جگہ لڑکوں کو کھیلوں میں بری طرح پھنسا دیا گیا ہے جتنا ہندوستان کشمیریوں کو دباتا ہے، اتنے زیادہ کھیلوں کے میچ، پاکستان اورہندوستان کے درمیان ہوتے ہیں اور پھر صلح و آشتی، محبت، بھائی چارے اور تجارت و دیگر تعلقات کی باتیں ہوتی ہیں ۔ اس بہانے ”رام رام جپنا، پرایا مال اپنا“ کا اُصول رکھنے والے ہندوستان کو ہم پر بالا دست بنانے کی تیاریاں ہورہی ہیں ۔ ان حالات میں کوئی محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی کہاں سے آئے ؟ ٭ افسوس جن بازووٴں کو حیدرِ کرار کی شمشیر آبدار بننا تھا وہ آج چھکے اور چوکے لگانے میں اپنی پوری توانائیاں صرف کررہے ہیں ۔ ٭ جن خواتین کو عفت و حیا کے ساتھ اپنے گھروں میں اگلی نسل کی بہترین تربیت کرنا تھا، اب وہ نت نئے ہیر سٹائل، گہرے میک اپ اور عریاں لباسوں کے ساتھ بیوٹی پارلروں اور بوتیکوں کی زینت بن رہی ہیں توکہیں دفتروں ، ہوٹلوں ، کلبوں اور طیاروں میں ملازمت کے دل پذیر نام سے مردوں کے دل لبھا رہی ہیں ۔اس مخلوط تعلیم نے اور پھر مساوی ملازمتوں کے جھانسے نے نسوانی تقدس واحترام کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ تہذیب و ثقافت اورکلچر کے دلکش نام سے بدترین بے حیائی ہمارے اندر در آئی ہے۔ ’شوبز‘ ایک مقدس ’پیشہ‘ بن چکا ہے : ناچ بیٹی کا ہے اور گانا باپ کا ہے اب یہی شعر و ادب ہے، یہی فنکاری ہے! ٭ اب والدین کوناراض کرکے محبت کی شادی جیسے گھمبیر مسائل آئے روز اخبارات کی زینت بنتے ہیں اور غیرت کے قتل جیسے مسائل بکثرت پیدا ہو رہے ہیں ۔ ٭ بے شمار ’عورت بگاڑ‘ تحریکیں وجود میں آچکی ہیں ۔مسلمان ممالک میں بہت سی یہودی تنظیمیں این جی اوز کے نام سے معاشرتی اصلاح کی خاطر گھس آئی ہیں ۔ ان کا مقصد ہی یہ ہے کہ معاشرتی اصلاح کے نام سے وہاں کی حکومتوں سے گراں قدر مشاہرے لیں اور عوام کو دین سے متنفر اور اقوام متحدہ کے ملحدانہ مغربی رویے کو وہاں جاری و ساری کریں ۔ پاکستان میں بھی ایسی بہت سی این جی اوز سرگرم عمل ہیں جو مسلمان عورتوں کو قاہرہ اور بیجنگ کانفرنس کے ایجنڈے کے مطابق مادر پدر آزاد بنانا چاہتی ہیں ۔ پھر مردانہ ملازمتیں کرنے سے خواتین میں مردانہ پن پیدا کردیا گیا ہے۔ اب وہ نسوانی ذمہ داریوں کو بیکار کابوجھ سمجھتے ہوئے ان سے اپنی جان چھڑانا چاہتی ہیں اور مردانہ کاموں کو اپنے لئے باعث ِشرف سمجھتی ہیں ۔ اوپر سے طرہ یہ کہ حکومت کی طرف سے خواتین کوسیاست میں گھسیٹنے کے قانون پیش کئے جارہے ہیں تاکہ کسی طور یہ خواتین گھر سے تو باہر نکل کر معاشرہ کی رنگینی میں اضافہ کریں ۔ ٭ یہ ٹی وی اور ریڈیو امربالمعروف اورنہی عن المنکر کا بڑا فریضہ اداکرسکتے تھے، یہ جدید ذرائع ابلاغ