کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 65
اپنے ملی و ملکی تقاضوں کے مطابق چلنا شروع کرے۔ فوراً گردن زدنی قرار پاتا ہے یا پھر اس کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا جاتا ہے۔ ٭ یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمران اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے اسلام کا نام بکثرت لیتے ہیں ۔ اٹھتے بیٹھتے عوام کو مطمئن رکھنے اور اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے ”اسلام ہمارا ضابطہ حیات ہے“ اور” اسلام آج کے دور کے تمام لاینحل مسائل کے لئے نسخہ شفا ہے“ جیسے دل پذیر بول بولتے رہتے ہیں اور اندر سے مغربی مفادات پورے کرتے رہتے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ منافقت اسلامی ممالک میں بڑھتی ہی چلی جاتی ہے جبکہ اسلام حجروں اور خانقاہوں میں مقید ہوتا جاتا ہے۔ ٭ لہٰذا پورا کاروبارِ حکومت مغربی قوانین (اینگلو سیکسن لاز)کے مطابق ہے۔ ٭ آج تک ہمارا عدالتی نظام اسلامی نہیں بن سکا۔ ہمارا معاشی نظام سود در سود کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ قرضوں کی معیشت نے وطن عزیز میں مہنگائی، بے روزگاری کا بہت بڑا بحران پیداکررکھا ہے اور ہمارے تمام مالی وسائل یہ حکمران طبقہ لوٹ لوٹ کر مغربی ممالک میں جمع کرا رہا ہے۔ ٭ہمارا تعلیمی نظام ۵۴ سال گزرنے کے باوجود بنیادی طور پر لادین ہے۔ اس میں ملی و ملکی تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، نہ اس میں فنی و پیشہ ورانہ تعلیم کا بندوبست ہے، نہ سائنسی تحقیق کا۔ ٭ ہمارا پورا معاشرتی ڈھانچہ زیر و زبر ہوکر رہ گیا ہے۔ دینی تعلیم سے دوری اور ناواقفیت اوپر سے ڈش، ٹی وی، اورمیڈیا کی یلغار۔ مغربی ثقافت نے ہمیں سرتا پا جکڑ لیا ہے، وہ ہمارے بیڈ روم میں گھس آئی ہے۔ ان حالات میں ہماری تمام دینی اصطلاحات اپنا مفہوم بدل چکی ہیں اورملی تقاضے زیرو زبر ہوچکے ہیں ۔ ٭ آج تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب، بے دینی، بے حسی، بے غیرتی اور بے حمیتی ہے۔ ٭ منافقت کا دل پذیر نام مصلحت کوشی اورباس کی جی حضوری ہے۔ ٭ سود کی لعنت ہمارے معاشروں میں ’نفع‘(Interest,Profit) کے دلکش نام سے نہ صرف رائج ہے بلکہ ہماری پوری معیشت کو کنٹرول کررہی ہے۔ ٭ موسیقی جو در اصل بدروح کی غذ ا ہے، اب انسانی روح کی غذا باور کرائی جاتی ہے جبکہ مسلمان کے لئے ازروئے قرآنِ کریم ، اللہ کا ذکر روح کی غذا ہوا کرتا ہے۔ ٭ عمل بالقرآن اب دورِ قدیم کی یادگار ہے۔ جمعہ کی چھٹی منسوخ اور اتوار تعطیل کا دن قرار پایا ہے۔ ٭ سترو حجاب کو آج قیدکا نام دے کر عورت کو گھر سے باہر نکال دیا گیا ہے۔ اسے مساوی حقوق کا جھانسہ دے کر طلب ِمعاش کا بوجھ اس کے ناتواں کندھوں پر ڈالا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے خاندان کا شیرازہ بکھرتا جاتا ہے۔