کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 62
تعلیم یافتہ صاحب ِاقتدار طبقہ ہے۔ اب یہاں مغربی جمہوریت اور مغربی سرمایہ داری کا دور دورہ ہے جو اپنے جملہ فسادات اور بڑھتے ہوئے جرائم کے ساتھ ہمارے دینی، ملکی اور قومی تقاضوں کو ملیا میٹ کررہا ہے۔ اس نے تو فکری غلاموں ، ذ ہنی مجرموں ، دہریوں ، سیاسی ابن الوقتوں ، اپنی تہذیب کے غداروں ، میر صادق، میر جعفر کو ہی جنم دیا ہے۔ إلا ماشاء اللَّه ! یہ دین بیزار نظامِ تعلیم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا مروّجہ نظامِ تعلیم ٹھوس دینی تعلیم سے عاری اور اخلاقی اقدار سے خالی ہے۔ یہ سیکولر نظام تعلیم اللہ و رسول کی تعلیمات سے دور کرنے والا، ملحد اورمذہب بیزار بنانے والا ہے۔ دوسری طرف یہ اہل مغرب کی وفاداری کا دم بھرنے والا ہے۔ اس نے ملی غیرت، قومی حمیت، موٴمنانہ شجاعت و بے باکی کو ختم کرکے خوئے غلامی کومستحکم کیا۔ پنجاب یونیورسٹی کی انکوائری رپورٹ میں درج ہے ”درس گاہوں میں نہ وہ حیاتِ روحانی ہے جو طالب علموں میں سوزِ دوروں پیدا کرے، نہ وہ وحدتِ اجتماعی ہے جو اس کی وفاداری کو استواری بخش سکے، نہ وہ ذ ہنی و اخلاقی شعلہ ہے جو اس کے سینے میں ولولوں کے چراغ روشن کرے۔“ (’پنجاب یونیورسٹی انکوائری رپورٹ‘ :صفحہ ۵۲) اور علامہ اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا : یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی! اس سے زیادہ المیہ کیا ہوگا کہ ہمارے بچے، ہماری ذہانت، قابلیت، ہمارا سرمایہ، ہماری سرزمین ، مگر جو بچے ان جان گسل مالی و جانی محنتوں اور والدین کی بے پناہ قربانیوں کے بعد تیار ہورہے ہیں ، وہ اسلام اور پاکستان کے وفادار نہیں بلکہ مغربی مفادات کے علم بردار اور مغربی آقاؤں کے وفادار ہیں ۔ اس نظام کے تعلیم یافتہ لوگ صرف کلرک اور جی حضوریے بن سکتے ہیں جو ملکی تقاضوں کو نہ سمجھ سکتے ہیں ، نہ ان کوپورا کرسکتے ہیں ۔ ہمارے وطن عزیز کو محض اعلیٰ تعلیم کی ضرورت نہیں بلکہ بنیادی اور معقول پیشہ وارانہ تعلیم کی بھی ضرورت ہے۔ ہمیں ماہرین زراعت، اعلیٰ سائنس دان، اعلیٰ دست کار اور صنعت کار کی ضرورت ہے۔ اچھے ڈاکٹر اور اچھے انجینئر ہماری بنیادی ضرورت ہیں ۔ مگر اس تعلیم سے ایسے مخلص محب ِدین و وطن اور قومی تقاضوں کو پورا کرنے والے افراد پیدا ہونے ناممکن ہیں ۔ اس تعلیم نے زندگی کو دو خانوں میں بانٹ دیا ہے اسلام تو پوری زندگی کا پروگرام ہے، یہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یہ ہمارے روحانی و مادّی تقاضوں کو بیک وقت پورا کرتا ہے۔ اسلام زندگی کے ہر معاملے میں اپنے اصولوں کی حکمرانی چاہتا ہے۔ ایک مسلمان کا دین اس کی دنیا سے الگ نہیں ، اس کی ’دینیات‘ اس کی ’دنیویات‘ سے متصادم نہیں ۔ مگر یہ نظامِ تعلیم دین کو دنیاوی ترقیوں کی راہ میں حائل سمجھتے ہوئے اسے بالکل ذاتی اورپرائیویٹ مسئلہ سمجھتا ہے۔