کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 61
۱۲۔شرح خواندگی 100% کیونکہ سب مسلمانوں کو پڑھنے کا تاکیدی حکم ہے اور ہر مسلمان بچہ مساجد میں اتنا علم ضرور حاصل کرلیتا ہے، جس سے اپنی زندگی کے دینی و عملی مسائل حل کرسکے۔ ۱۳۔اسلامی تعلیم لازمی، مفت اور یہاں یکساں تعلیمی مواقع سب کے لئے ہیں ۔ ۱۴۔یہ غوروفکر پر ابھارتی اور تخلیقی صلاحیتیں پیدا کرتی ہے۔ ۱۵۔یہاں ہاتھ کی کمائی دست کاری اور صنعت و حرفت کی بڑی قدرو وقعت ہے۔ اسی طرح مغربی لادینی نظام تعلیم کے دیگر بے شمار نقائص ہیں ۔ ۱۲۔یہاں غیر ملکی زبان انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنا کر شرح خواندگی عمداً بہت کم رکھی جاتی ہے تاکہ عوام جو نچلا طبقہ ہے، پڑھ لکھ کر کہیں برابر نہ آجائے اور اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کر بیٹھے۔ بالفاظِ دیگر یہ تعلیم صرف اپنی چودھراہٹ قائم رکھنے کا ذریعہ ہے۔ ۱۳۔چونکہ تعلیم کے گراں قدر اخراجات ہیں ۔ لہٰذا صرف امیر پڑھ سکتے ہیں ، غریبوں کو آخر تعلیم کی کیا ضرورت؟ ۱۴۔چند فرسودہ معلومات کو رَٹ کر امتحان پاس کرنا سکھاتی ہے۔ غوروفکر کی عادت پیدا نہیں کرتی۔ تحقیق و تفتیش سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ۱۵۔مغربی تعلیم نے صرف اور صرف ملازمت ہی کو ہمارے ہاں باعث ِشرف و وقار قرار دیا، دستی ہنر کو عار سمجھا گیا، ٹیکنالوجی کے حصول اور صنعت و حرفت سے پڑھے لکھے نوجوان عمداً گریز ہی کرتے رہے۔ یہ مادّہ پستی کا محرک ہے صرف ایک مقصد بنایا گیا ہے کہ پڑھ لکھ کر ملازمت حاصل کرنا یہی مقصد ِوحیدہے، اس تعلیم کا۔ اگر فارغ ہونے کے بعد جائز طریقے سے دولت ملے تو ٹھیک وگرنہ پھر لوٹ مار، چوری ڈاکہ سے مال حاصل کرنا ضروری ہے۔ دولت کے بغیر تعلیم بالکل ضائع اوربیکار سمجھی جاتی ہے اور اب تو یہ مادّہ پرستی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اصل مقصود تو حصولِ ملازمت و دولت ہے۔ اس کے لئے سند کی ضرورت ہے اور سند امتحان میں کامیابی سے حاصل ہوتی ہے۔ اس سند کے حصول کے لئے امتحانوں میں ناجائز ذرائع بھی اختیار کئے جانے لگے، ڈگریاں فروخت ہونے لگیں ، سندوں کی خرید و فروخت کے جعلی کاروبار ہونے لگے، پرچے بلکہ امتحانی سنٹرز تک بکنے لگے۔ اخلاقی فساد اس تعلیم نے اتنے کڑوے کسیلے پھل دیے ہیں کہ وطن عزیز پاکستان کو، جو لاالہ الا اللہ کے نعروں اور وعدوں کے ساتھ وجود میں آیا تھا، اور جس کو اسلام کا قلعہ بننا تھا، لوٹ کھسوٹ، ڈاکہ زنی، چوری چکاری، بے حیائی، آوارگی فکرونظر، قتل وغارتگری، تشدد، دہشت گردی، اغوا برائے تاوان اور گینگ ریپ کا مرکز بنا دیاگیا۔ سیاسی طور پر، اخلاقی طور پر، مالی و معاشی میدان میں ، معاشرتی زندگی میں ، غرض ہر پہلو سے اسلامی نظریہ، مقصد اور نصب العین سے انحراف جاری رہا، اور اس انحراف کے ذمہ دار یہ پڑھے لکھے، اعلیٰ