کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 57
”دنیا میں ایسی قومیں بہت کم ہوں گی جن میں ہندوستانی مسلمانوں سے زیادہ تعلیم کا رواج عام ہو۔ ہر وہ شخص جسے ۲۰ روپے ماہوار کی ملازمت حاصل ہو، وہ اپنے بیٹوں کو کسی وزیر اعظم کے بیٹے کے برابر تعلیم دلواتا ہے۔ جو کچھ ہمارے بچے یونانی اورلاطینی زبانوں کے ذریعے سیکھتے ہیں ، یہاں کے نوجوان وہی باتیں عربی اور فارسی کے ذریعے سیکھتے ہیں ۔ سات سالہ نصاب کے مطالعہ کے بعد یہاں کا مسلمان نوجوان علم کی تمام شاخوں ، گرامر، بلاغت، منطق وغیرہ سے قریب قریب اتنا ہی واقف ہوتا ہے جتنا آکسفورڈ کا اعلیٰ تعلیم یافتہ کوئی نوجوان۔ اور حیرت یہ ہے کہ یہ بھی اسی طرح سقراط، بقراط، ارسطو، افلاطون، جالینوس اور بوعلی سینا کے متعلق بڑی روانی سے گفتگو کرسکتا ہے۔“ (’نظامِ تعلیم‘ از پروفیسر خورشید احمد :صفحہ ۷۸) صرف بنگال کے علاقے میں انیسویں صدی کے آغاز میں ایڈم٭ کی مشہور رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ مدارس موجود تھے۔ مگر انگریزوں نے تعلیم کا حلیہ اتنا بگاڑا کہ جب وہ یہاں سے گئے تو پورے ملک میں خواندگی کامعیار% 11.8 اور اسکول کے تعلیم یافتہ افراد کا تناسب صرف%5سے بھی کم تھا۔ کہاں% 84 خواندگی کا معیار اورصرف بنگال میں ایک لاکھ مدارس اور کہاں یہ% 11 معیارِ خواندگی اور پورے برصغیر میں ایک لاکھ چونسٹھ ہزار تعلیمی ادارے اور معیار بھی پست ٭ بہ بین تفاوت از کجا تا کجا! اوپر سے انگریزوں کے بے سروپا دعوے کہ انہوں نے ہندوستان کو تعلیم دی اور تہذیب سکھائی۔کیا یہی فروغِ تعلیم ہے؟ اگر یہ فروغِ تعلیم ہے تو تعلیم کی تباہی کس چیز کا نام ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ تعلیم کے ساتھ انگریزوں نے سوتیلی ماں والا سلوک کیا۔ محض سیاسی اغراض کے لئے اسے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا، جس نے جی حضوریے تو پیدا کردیے مگر ایسے انسان نہ پیدا کرسکا جوبدلتے حالات میں اپنے لئے آزادانہ فیصلے کرکے نئی راہیں نکال سکتے، جو ان کی کردار سازی کرسکتے۔ پھر انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر تعلیم یافتہ افراد کا رشتہ اپنے ہم وطنوں سے کاٹ کر مغربی دنیا سے جوڑ دیا گیا۔ موجودہ تعلیمی حالت قیامِ پاکستان کے بعد بھی یہ نظامِ تعلیم جزوی تبدیلیوں کے ساتھ اسی طرح جاری رہا۔ اس وقت ہم ایک ایسے نظام تعلیم میں گھرے ہوئے ہیں جو ہمارے عقائد، اخلاقی و دینی اقدار، ثقافت، ملکی ضروریات ، روایات اور ہمارے ادب غرض ہر چیز کے لئے چیلنج ہے۔ ملک کا ہر فرد اور اربابِ اختیاربھی اس کے خلاف نوحہ کناں ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ خود اس نظام کے تعلیم یافتہ افراد اس کی خامیوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ وہ خود مغرب سے مرعوب اور ان کے وفادار ہیں ، وہ اس تعلیمی نظام کو جڑ سے اُکھاڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔