کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 56
تہذیبی و اخلاقی اقدار سے دور لے جانے والی تھی اور اس کی روح پر مادّیت اور عیسائیت کا غلبہ تھا۔ اس کا مقصد بظاہر صرف انگریز کی ملازمت دلانا تھا اور بباطن پڑھنے والے مسلمانوں کو اسلام سے بیزار کرنا تھا۔ اکبر الٰہ آبادی مرحوم نے کیا خوب لکھا تھا : مذہب چھوڑو، ملت چھوڑو، صورت بدلو، عمر گنواؤ صرف کلرکی کی اُمید اور اتنی مصیبت توبہ توبہ! مسلمانوں میں سرسید اس نئے نظام تعلیم کے سب سے بڑے موٴید تھے اورانہوں نے مسلمانوں کو قومی عصری ضروریات کو پورا کرنے اور سیاسی دھارے سے ہم آہنگ ہونے کے لئے جدید تعلیم کی ضرورت پر زور دیا اور چند جزوی ترمیمات کے بعد اسے اپنے قائم کردہ ’محمڈن اینگلو انڈین اورینٹل کالج‘ علی گڑھ میں نافذ کردیا۔ علی گڑھ کالج:علی گڑھ کے اورینٹل کالج نے تعلیمی دنیا میں جو خدمات انجام دیں ، اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر مجموعی حیثیت سے علی گڑھ کی تعلیمی تحریک کے نتائج مسلمانوں کے لئے تباہ کن ہی رہے۔ آج ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں کو جو فکری، تہذیبی، اخلاقی اور تعلیمی مسائل درپیش ہیں ، بڑی حد تک علی گڑھ اور اس کے بنائے ہوئے ذہن کی پیداوار ہیں ۔ مسلمانوں میں جدید تعلیم کا تناسب تو کچھ بڑھ گیا مگر جس مقصد کے لئے تعلیم دی جاتی ہے یعنی نظامِ تعلیم کو ملّی نظریات و روایات اور مقصد ِحیات سے ہم آہنگ کرنا، وہ اس میں مفقود ہے۔ آج ہزار خواہشوں کے باوجود تعلیم کی تشکیل جدید کی راہ میں جو رکاوٹ ہے وہ سرسید کے علی گڑھ کا پیدا کردہ مغربی تعلیم والا لادینی مزاج ہے۔ مسلمانوں کی دیگر علمی تحریکیں تعلیم کے میدان میں علی گڑھ کے ساتھ ساتھ اس دور میں مسلمانوں میں اور بھی کئی تحریکیں اٹھیں ۔ کئی نئے مدارس قائم کئے گئے مثلاً دارالعلوم دیوبند، ندوة العلما لکھنوٴ، جامعہ ملیہ دہلی وغیرہ، مگر یہ سارے تعلیمی ادارے اس مغربی زہر کا تریاق نہ کرسکے جو مغربی تعلیم کے ذریعے مسلمانوں کو پلایا جارہا تھا۔ اس جدید مغربی تعلیم کا یہ نتیجہ برآمد ہواکہ مسلمانوں کا تعلیمی معیار انتہائی پست ہو کر رہ گیا۔ تخلیقی صلاحیتیں مفقود ہوگئیں ۔ مغربی نقالی اور مغربی آقاؤں کی غیر مشروط وفاداری ہی جدید تعلیم کا طرہٴ امتیاز بنی۔ مسلمانوں کا تعلیمی نقصان جس وقت انگریزوں نے ملک کا اقتدار سنبھالا تھا تو جنرل ’سیل مین‘(Seeleman) کی رپورٹ کے مطابق جو انیسویں صدی کی ابتدا میں مسلمانوں کے تعلیمی مقام و مرتبے کاذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے: