کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 55
جو رنگ و نسل کے اعتبار سے بلا شبہ ہندوستانی ہو، مگر فکرونظر اور سیرت و اخلاق کے لحاظ سے خالص انگریز ہو اور برطانیہ کی سول ایڈمنسٹریشن میں ملازمت کی اہل ہو۔“ علاوہ ازیں وہ اہل ہند کو اس طرح ذہنی طور پر مرعوب کرکے اپنی برطانوی مصنوعات کی کھپت کے لئے مارکیٹ بنانا چاہتے تھے۔ بتدریج ارتقا اور پھر اس کے بعد شعبہٴ تعلیم پر حکومت کی گرفت مضبوط ہونے لگی۔ نئے نظام کے تحت بہت سے پرائمری سکول اور ثانوی تعلیم کے ادارے قائم ہونے لگے۔ ۱۸۵۷ء میں ’انڈین یونیورسٹیز ایکٹ‘ پاس ہونے سے کئی یونیوسٹیاں بھی قائم ہوئیں ۔ اس طرح پرائمری، ثانوی اور یونیورسٹیوں کی اعلیٰ تعلیم سے نئے تعلیمی نظام کو مکمل نشوونما کا موقع ملا اور مغربی طرز کی اعلیٰ تعلیم فروغ پانے لگی۔ تعلیم کا نظام جو برصغیر ہندوپاک میں مسلمانوں کے ہزار سالہ دورِ حکومت میں مکمل آزادی کی فضا میں پرورش اور نشوونما پا رہا تھا اور ہر ایک کے لئے مساوی تعلیم کے مواقع فراہم کرتا تھا، علاوہ ازیں اس میں تعلیم لازمی اور ہر ایک کے لئے مفت تھی۔ اربابِ حکومت اور عام دولت مند افراد تعلیم و تعلّم کے لئے فراخدلانہ امداد کررہے تھے۔ پھر تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ کسی کے ماتحت نہ تھا، جس میں استاد اور شاگرد کے درمیان گہرے روحانی روابط موجود تھے۔ یہ تعلیم مسجد، خانقاہ اور عام مدارس میں دی جارہی تھی۔ مگر اب یکسر سارا تعلیمی نظام تبدیل ہو کر رہ گیا تھا۔ اب انگریز حکمرانوں نے مسلمانوں کے پرانے تعلیمی نظام کی بساط مکمل طور پر لپیٹ کر رکھ دی۔ مدارس کے لئے اہل خیر نے جو بڑی بڑی جائیدادیں وقف کررکھی تھیں ، حکومت نے وہ جائیدادیں ضبط کرلیں ۔فارسی زبان (جو اس وقت مسلمانوں کی سرکاری اور د فتری زبان تھی) کی تعلیم پورے ملک میں حکماً بند کردی گئی۔ اس طرح مدارس کا درسِ نظامی والا نظامِ تعلیم آدھا مفلوج ہوگیا یعنی اس کا دینی حصہ تو باقی رہ گیا مگر فارسی والاحصہ جو سرکاری اُمور کا ضامن تھا، کٹ کر گر پڑا۔ اب صرف وہ سخت جان مدارس باقی رہ گئے جو سیاست، تمدن اور معاش کی سخت مار کے باوجود بھی اپنے مقام سے نہ ہٹے۔ یہ نیا تعلیمی نظام ہندوؤں میں تو خوب مقبول ہوا مگر مسلمانوں نے اسے اللہ، رسول، آخرت اور اخلاقی اقدار کے منافی سمجھتے ہوئے، اسے اختیار کرنے میں حیل و حجت اختیار کی۔ انہیں انگریزی کی تعلیم پر اعتراض نہ تھا بلکہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ فتویٰ بھی دیا تھا کہ ”انگریزی زبان سیکھنے میں کوئی شرعی قباحت نہیں ۔“ مگر مسلمانوں کا اصل اعتراض ہی یہ تھا کہ یہ نئی تعلیم سیکولر ہے جو مزاج، مقاصد، اپنے نصابِ تعلیم اور اپنے اجتماعی ماحول کے اعتبار سے دین اسلام اور اسلامی